بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیے اور طاقت کے غلط استعمال کو سختی سے روکا جائے : جماعت اسلامی ہند

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 02-11-2025
بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیے اور طاقت کے غلط استعمال کو سختی سے روکا جائے : جماعت اسلامی ہند
بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیے اور طاقت کے غلط استعمال کو سختی سے روکا جائے : جماعت اسلامی ہند

 



 نئی دہلی: بہار اسمبلی انتخاب میں نقرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ الیکشن کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہئے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں منعقد ہونے والی ماہانہ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیے اور طاقت کے غلط استعمال اور خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم پراظہار خیال کر رہے تھے ۔پریس کانفرنس میں ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (ای پی سی آر) کے سکریٹری ندیم خان نے سی اے اے مخالف سیاسی کارکنان کی مسلسل قید پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے بہار کے عوام سے اپیل کی کہ وہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی دانش مندی اور ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے جو جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا چناؤ ان کے وژن، کارکردگی، دیانت داری اور عوامی مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کے بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ نفرت انگیز تقریروں ، فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور طاقت کے ناجائز استعمال سے گریز کریں۔ نائب امیر نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے مطالبہ کیا کہ انتخابات کو آزاد، منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔انہوں نے کہا کہ بہار سیاسی شعور اور سماجی ہم آہنگی کی سرزمین رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ بہار کے عوام ایسے امیدواروں کا چناؤ کریں گے جو حقیقی ترقی،حق و انصاف اور امن کے لیے پرعزم ہوں۔

ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے تین حالیہ واقعات کی طرف اشارہ کیا ۔مہاراشٹر میں ایک خاتون ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دہلی میں ایک اسپتال کی ملازمہ جو جعلی فوجی افسر کے ذریعے پھنسائی گئی اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ کو نشہ دے کر بلیک میل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ واقعات تنہا نہیں بلکہ سماج میں بڑے پیمانے پر آ رہی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات اس عدم تحفظ کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو ملک کی خواتین کو روزمرہ کی زندگی میں درپیش ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ' کرائم ان انڈیا 2023 ' کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں خواتین کے خلاف 4,48,211 مقدمات درج ہیں، انہوں نے کہا کہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں خواتین کے تحفظ میں ناکامی نہایت تشویشناک ہے۔اس ضمن میں جماعت اسلامی ہند نے تیز رفتار عدالتی کارروائی، متاثرین کو فوری انصاف کی فراہمی، پولیس، عدلیہ و صحت کے شعبے میں وسیع تر صنفی تحفظ کی تربیت و حساسیت کا مطالبہ کیا۔ تاہم پروفیسر سلیم نے خبردار کیا کہ صرف قوانین کافی نہیں ہیں۔ ہمیں سخت قوانین کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی عوامی بیداری کی تحریک کی بھی ضرورت ہے تاکہ احترام، وقار، خدا کے خوف پر مبنی سماجی اقدار کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔

پریس کانفرنس میں اے پی سی آر کے سیکرٹری ندیم خان نے 2020 دہلی دنگا سازش کیس میں قید اینٹی سی اے اے کارکنوں کی مسلسل نظربندی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بے گناہ طلبہ اور کارکنان پانچ سال سے زائد عرصہ سے بغیرکسی مقدمہ کے جیلوں میں بند ہیں۔ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے، جو اس اصول کے منافی ہے کہ ضمانت قاعدہ ہے، قید استثنا۔انہوں نے دہلی پولیس کی جانب سے ضمانت کی مخالفت پر تنقید کی، خاص طور پر اس کے اس دعوے پر کہ دہلی فسادات حکومت گرانے کی سازش کا حصہ تھے۔ ندیم خان نے کہا کہ واٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریریں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ یو اے پی اےکے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے ۔

جماعت اسلامی ہند اور اے پی سی آر نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ ضمانت کو ترجیح دی جائے اور انصاف کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھا جائے ۔ندیم خان نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے۔ اس کا گلا گھوٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کے لیے تباہ کن ہے