گجرات:مندراحاطے میں افطاراور نمازمغرب

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 10-04-2022
گجرات:مندراحاطے میں افطاراور نمازمغرب
گجرات:مندراحاطے میں افطاراور نمازمغرب

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

دلواڑہ: جہاں ایک طرف حجاب،حلال وغیرہ کے بہانے ملک میں مسلمان نشانے پر ہیں، وہیں دوسری طرف ایک مندر نے مسلمانوں کودعوت دے کرمحبت کا پیغام دیاہے اور ان نیتائوں کوطمانچہ ماراہے جو سیاسی مقاصد کے لئے ملک کی ہم آہنگی کو بگاڑنے کا کام کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست لوگوں کے باہمی بھائی چارے کو توڑنے کا کام کرتی ہے، لیکن مذہب کوئی بھی ہو، وہ صرف لوگوں کو جوڑنے میں یقین رکھتا ہے۔ ملک میں کچھ طاقتیں دو برادریوں کے درمیان نفرت پھیلاکراپنا الو سیدھا کرتی ہیں لیکن گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے لوگوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

یہ وہی گجرات ہے جسے مسلم کش دنگوں کے لئے یاد کیا جاتاہے مگر اب اس کا مزاج بدلتا جارہا ہے۔ اس وقت جہاں فطرت کی دیوی کے نو روپوں کا تہوار نوراتری بڑی شان و شوکت سے منایا جا رہا ہے اوردوسری طرف مسلمان ، رمضان کے مقدس مہینے میں روزے رکھ کر اللہ کی عبادت کر ر ہے ہیں۔

اس دوران کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے سماج کو بانٹنے میں لگے ہیں تو سچے ہندوستانی، باہمی محبت ویگانگت کا پیغام دے رہے ہیں۔ شاید یہ پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کے لیے مغرب کی نماز پڑھنے اور افطار کرنے کے لیے کسی قدیم مندر کے دروازے کھولے گئے ہیں۔

یہی نہیں، مندر چلانے والوں نے سو سے زائد روزہ داروں کے کھانے پینے کے تمام انتظامات بھی کیے، تاکہ افطاری کے وقت انہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ روزہ داروں کے لیے پانچ سے چھ قسم کے پھل، کھجور اور شربت کا انتظام کیا گیا تھا۔ ملک میں گزشتہ چند سالوں میں جس طرح کا ماحول بنا ہے اسے دیکھتے ہوئے اتحاد کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

ہادیول گجرات کے دلواڑہ ضلع میں بناسکانٹھا کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں ورداویر مہاراج کا ایک مندر ہے جو 1200 سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ اس گاؤں کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد مسلمان ہیں لیکن 85 فیصد ہندوؤں کے ساتھ ان کا بھائی چارہ ایسا ہے کہ نفرت کی آگ کبھی اسے جلا نہیں سکی۔

رمضان کا پہلا جمعہ تھا اور اسلام میں جمعہ کی اپنی اہمیت ہے، اس لیے مندر چلانے والوں نے فیصلہ کیا کہ گاؤں میں رہنے والے مسلمان خاندان مندر کے احاطے میں آئیں، افطار کریں اور مغرب کی نماز مندر کے احاطے میں ہی ادا کریں۔

بڑی بات یہ ہے کہ گاؤں کے سرپنچ بھوپت سنگھ ہادیول نے شام کو مندر کے احاطے میں افطار پارٹی کا اہتمام کرنے اور تمام مسلمان بھائیوں کو افطار کرنے کی دعوت دینے کی تجویز پیش کی تھی جسے پورے گاؤں نے متفقہ طور پر قبول کر لیا تھا۔

awazurdu

سرپنچ کے مطابق، "ہم نے آس پاس کے دیہاتوں کے مسلمان دوستوں کو بھی مدعو کیا اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔" تصور کریں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا یہ نظارہ کتنا شاندار ہوگا کہ ایک طرف مسلمان بھائی نماز مغرب ادا کر رہے تھے، وہیں مندر میں ہر شام ویر مہاراج کی باقاعدہ آرتی بھی ہوتی تھی۔

ورندا ویر مہاراج مندر، دلوارہ دیوستھان ٹرسٹ کے سکریٹری رنجیت ہادیول کے مطابق، "جب ریاست میں ہندو مسلم تنازعات اپنے عروج پر تھے، تب بھی ہمارے گاؤں نے اتحاد اور مذہبی رواداری کی مثال قائم کی تھی۔ دسہرہ، محرم، دیوالی یا عید۔ ، ہم اپنے تہواروں کو اجتماعی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔"

گاؤں کے زیادہ تر مسلمان خاندان پالن پور کے سابق حکمرانوں کو اپنےاجداد مانتے ہیں جنہوں نے مندر کی تعمیر کے لیے چندہ دیا تھا۔

دلوانہ کے ایک نوجوان تاجر وسیم خان فخر سے کہتے ہیں، "ہمارا گاؤں دو برادریوں کے درمیان بھائی چارے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ ان کے تہواروں میں بھی کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا ہے۔ اس بار، گرام پنچایت نے ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے رہنماؤں سے رابطہ کیا اور ان کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ ہم اس جمعہ کو مندر آکر اپنا روزہ افطار کریں۔ یہ ہمارے لیے بہت جذباتی موقع تھا۔‘‘

۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، دلوانہ کی آبادی تقریباً 2,500 ہے، جس میں بنیادی طور پر راجپوت، پٹیل، پرجاپتی، ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان بھی آباد ہیں۔ مسلمانوں میں تقریباً 50 خاندان ہیں جو عموماً زراعت اور چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

دلوانہ کی سرپنچ پنکیبا راجپوت کے مطابق، ’’رامنومی اور ہولی کے تہواروں کے دوران ہمارے مسلمان بھائیوں نے ہماری مدد کی، اس لیے ہم نے سوچا کہ اس سال بھی ہمیں ان کے لیے ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘‘ مذہب کے ٹھیکیدار، جو معاشرے میں دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلاتے ہیں۔ کیا کوئی اس مثال سے سبق لیں گے؟