کورونا:مسلمان کر رہے ہندولاشوں کا انتم سنسکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-04-2021
تمثیلی تصویر
تمثیلی تصویر

 

 

دانش اور صدام کرچکے ہیں ساٹھ سے زیادہ ہندولاشوں کاانتم سنسکار

 

غوث سیوانی ،نئی دہلی

انسانیت سے بڑادھرم کوکوئی نہیں،اور اس بات کو وہ لوگ سچ ثابت کرنے میں لگے ہیں جوکوروناکی مشکل گھڑی میں مذہب سے اوپراٹھ کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ مدد کرنے والے یہ نہیں دیکھ رہے کہ اگلے کا دھرم کیاہے؟ذات کیاہے اور کس نسلی طبقے سے تعلق رکھنے والاہے۔

یہاں تک کہ کچھ نیک دل مسلمان توان لاوارث ہندولاشوں کے انتم سنسکار کے لئے آگے آئے ہیں جنھیں کورونا کے سبب ان کے اپنوں نے چھوڑ دیاتھا۔ آوازدی وائس پرقارئین نے پونے کے انجم انعامدارکے متعلق پڑھا ہے جوسبھی مذاہب کی کورونا متاثرہ لاشوں کی آخری رسومات اداکرتے ہیں۔

دربھنگہ(بہار)کی بھی خبرپڑھی ہے کہ جب ایک بیٹے نے اپنے باپ کی لاش کو کورونا کے سبب چھوڑدیاتوایک مسلمان نوجوان نے اسے شمشان گھاٹ لے گیااور انتم سنسکارکیا۔حالانکہ ایسے واقعات بڑی تعداد میں ہورہے ہیں کہ شمشان گھاٹوں پرمسلمان، اپنی خدمات رضاکانہ طور ہر دے رہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں بھوپال کے صدام اور دانش۔

دانش اور صدام کو سلام

صدام اور دانش اب تک ساٹھ سے زیادہ ہندولاشوں کا انتم سنسکار کرچکے ہیں، وہ مسلمان کی حیثیت سے روزہ رکھتے ہیں،نماز اداکرتے ہیں۔ ساتھ ہی ان لاشوں کا انتم سنسکار بھی کرتے ہیں کہ جنھیں کورونا کے سبب ان کے اپنے چھوڑ دیتے ہیں اور قریب آںا پسند نہیں کرتے۔ ایسا اکثر ہوتاہے کہ لاشیں زیادہ آجاتی ہیں اور انھیں سحری وافطار بھی شمشان گھاٹ میں ہی کرنا پڑتاہے۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں ،دونوں روزے کی حالت میں اسپتالوں اور قبرستانوں کے چکر لگاتے ہیں اور جہاں کہیں ایسی لاشیں مل جاتی ہیں،ان کاانتم سنسکار کرتے ہیں۔

تومسلمان آئے سامنے

ودیشا(مدھیہ پردیش) گاندھی روڈ پر رہنے والی ایک جین خاتون کا کورنا سے انتقال ہوگیا۔ اس کا بیٹابھی کورونا پوزیٹیو تھا اورہوم کورنٹائین تھا۔ آس پڑوس کے لوگوں نے انتم سنسکار کے لئے لاش لینے سے انکار کردیا،ایسے وقت مقامی مسلمان پہنچے اور مطالبہ کیا کہ لاش ان کے سپردکی جائے وہ انتم سنسکار انجام دیں گے مگرپولس نے انھیں لاش دینے سے انکار کردیا اور نائب تحصیلدار عطا اللہ خان کی نگرانی میں انتم سنسکارہوا۔

تب نوشاداور شمشاد سامنے آئے

رحیم آباد،ترونا(اترپردیش) کے رہنے والے رام سوروپ کی موت ہوگئی اور جب کوئی بھی انھیں کندھا دینے نے نہیں آیا تو گائوں کے مسلمان لڑکے نوشاعلی وشمشاد علی آگے آئے۔ انھوں نے متوفی کی لاش کونہلایا،کفن پہنایا اورپھر لگ بھگ آدھ کیلومیٹرکندھے پر لے کرشمشان گھاٹ پہنچے،جہاں انتم سنسکارکیا گیا۔ اس بارے میں کوئی خبرنہیں کہ رام سوروپ کی موت کورونا سے ہوئی تھی مگران دنوں کو لوگوں میں بھرم پھیل جاتا ہے کہ مرنے والا کورونا کا شکار تھا۔

یہ سیاست کا وقت نہیں

جہاں ایک طرف کوروناکی مشکل گھڑی نے لوگوں کو انسانیت کے نام پر متحد کردیا ہے وہیں دوسری جانب کچھ لوگ اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آرہے۔ معاملہ وڈوڈرا (گجرات) کا ہے،جہاں شمشان گھاٹ پر لاشوں کی لائنیں لگی ہیں اور کچھ سماجی رضاکار بھی انتم سنسکار میں مدد کر رہے ہیں۔ ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔

بی جے پی کے ایک مقامی نیتا نے یہاں مسلمانوں کو دیکھ کر ناراضگی کا اظہارکیاجس پر بی جے پی کے ہی کچھ دوسرے نیتائوں نے اسے جھڑک دیا اور مصیبت کی اس گھڑی میں سیاست کرنے سے منع کیا۔شہرکےمیئر اور پارٹی کے دیگرنیتائوں نے اس طرز عمل کو کافی شرمناک قرار دیا۔

مشتعل رہنما نے اس کے بارے میں وڈوڈرا مہا نگر میونسپلٹی کو بھی شکایت کی ، لیکن میٹروپولیٹن بلدیہ نے وہاں اس کی شکایت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وڈوڈرا کے میئر کیور روکاڈیا نے کہا کہ اس وبا کے وقت تمام لوگوں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔

وبائی مرض کے اس دور میں ، جب وہ متعدد بار اپنے ہی ممبر کی لاش چھوڑ کر اسی طرح باہر نکل جاتے ہیں ، ایسی صورتحال میں یہ رضا کار اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کی ارتھی میں مدد کے لئے آگے آرہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں اتحاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے ، ہندو مسلم کے بارے میں بات نہیں کی جائے۔