سمیتا بھٹاچاریہ/جورہاٹ
سنہ 2011 میں جب انجم نعمان محمد کے شوہر کا انتقال ہوا توان کے لیے دنیا ہی اجڑ گئی،ان کا سب کا کچھ ختم ہوگیا۔وہ ایک گھریلو خاتون تھیں،اور دوچھوٹے بچوں کی ماں۔اپنے شوہرکےانتقال کے بعد انہوں نےان کے آبائی پیشہ ٹی اسٹیٹ(Tea Estate) کا انتظام سنبھالنا شروع کیا،جسے کئی برسوں سے ان کے شوہر نے اپنی نوکری کی وجہ سے چھوڑ رکھا تھا۔
وسطی آسام کے ناگون ضلع میں 110 ہیکٹر چپنالہ ٹی اسٹیٹ ہے، جسے بار باگن یا بڑا باغ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ دراصل ایک برطانوی دورمیں قائم کیا گیا چائے کا باغ ہے، جسے1864میں قائم کیا گیا تھا۔
سنہ2011 سے پہلے انجم گھریلو چائے بنانے کےعلاوہ چائے سے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔آج وہ چائے کے باغات کو سنبھال رہی ہے۔
انجم نعمان محمد
کبھی چائے کاروبار صرف مردوں کے دسترس میں تھا،اب اس کاروبار میں خواتین بھی آگے آ رہی ہیں، انہی میں سے ایک انجم نعمان محمد ہیں۔آج وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہے۔ تاہم اس کام کو سرانجام دینے میں انجم جیسی ایک گھریلو خاتون کوبہت سی مشکلات پیش آئیں۔اگرچہ ان کا کاروباری سفراب بھی آسان نہیں ہے،تاہم وہ تمام مشکلات پرقابو پانے کے لیے پرعزم ہیں، جس کی وجہ سےوہ انٹرپرینیورشپ (entrepreneurship) کے میدان میں دیگر خواتین کے لیے ایک رول ماڈل بنتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ کام شروع کیا تو اس وقت بہت ہی مشکل دور تھا۔ انہوں نے آوازدی وائس کوبتایا کہ مجھےاِس بات کا علم نہیں تھا کہ کاروباراور چائے کے باغ کا کیا مطلب ہے۔ میرے شوہرکا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا جب کہ وہ چائے کے کاروبار کو مزید بڑھانے کے لیے ایک بینک سے بہت بڑا قرض بھی لے لیا تھا۔انجم نے کہا کہ جب اس نے چپنالہ ٹی اسٹیٹ کو چلانے کا چارج سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو وہ قرض میں ڈوبی ہوئی تھیں اور کاروبار کے لیے نقد رقم بالکل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ان کے دونوں بچے زیرتعلیم تھے، ان کی تعلیم کا خرچ بھی الگ تھا۔
اس لیے انہوں نے باغ کا انتظام خود سنبھالنے کے بجائے کچھ بروکر(Broker) کے ہاتھ میں دے دیا۔ انہوں نے ان سے وعدہ کیا وہ سارا انتظام سنبھالیں گے اور بینک کا قرض بھی ادا ہو جائے گا۔بروکر نے انہیں ایک مخصوص رقم دینے کا بھی وعدہ کیا۔ یہ معاہدہ دویا تین لوگوں سے ساتھ ہوا۔مگر بروکر نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا، بینک قرض ادا ہونے کے بجائے مزید قرض کا بوجھ بڑھ گیا۔ حد تو یہ چائے کا باغ قریباً بینک کے ذریعہ نیلام ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
انجم نعمان محمد اپنے اسٹاف کے ہمرا
جب کاروبار کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو انجم نے بروکرسے معاہدہ ختم کر دیا اوربینک سے مزید وقت مانگا اور اس کے علاوہ مقامی پرائیویٹ فنانسرز سے مزید رقم قرض لے کر کام شروع کیا۔انہوں نے بتایا کہ جب میں نے اس دنیا میں قدم رکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو صرف مردوں کی دنیا ہے، یہاں ایک عورت کو سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ انہیں اپنے قدامت پسند رشتہ دار خواتین کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے بتایا کہ جب میں نےان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے اور میرے بچوں کے اخراجات پورا کریں گے تو میرے رشتہ دار خاموش ہوگئے اور میری مدد کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آیا کیونکہ چائے کا باغ اس وقت برے دور سے گزر رہا تھا۔ اس کے علاوہ جو بھی مدد کے لیے آیا وہ چائے کے کاروبار میں شیر چاہتا تھا،دراصل وہ باغ پراپنا قبضہ جمانا چاہتا تھا۔
اسی دوران اس کی بیٹی نے گریجویشن کرنے کے بعد دہلی کی ایک فرم میں کام کرنا شروع کیا۔اب ان کا بیٹا بھی گریجویشن کرچکا ہے اور ان کی مدد کر رہا ہے۔ سبز پتی بیچ کر انجم اپنے خاندان کو سنبھالنے اور قرض کا کچھ حصہ ادا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں، لیکن پرائیویٹ فائنانس کا قرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ انجم نعمان محمد کا کہنا تھا کہ وبائی بیماری کے دوران حکومت نے ہدایت کی کہ مزدوروں کو پوری اجرت ادا کرنی ہوگی قطع نظر اس سے کہ باغ میں پیداوارہو رہی ہے یا نہیں۔ میں پیسے کہاں سے لاؤں؟
انجم نے بتایا کہ پرائیویٹ فائنانسرزمجھے پریشان کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان مزدوروں کو اجرت دی جائے گی جس کے باغ میں کچھ پیدا ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بہت ساری رکاوٹیں ہیں، اور اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ منافع 100 فیصد ہے، جب کہ قرض 130 فیصد ہے۔ کارکنوں کو سنبھالنا بھی مشکل کام ہے جیسا کہ کبھی کبھی وہ صرف ایک عورت کی بات نہیں سننا چاہتے۔
انجم جان محمد کاروباری معاملات طے کرتے ہوئے
ان کا کہنا ہے کہ چائے کی صنعت ان دنوں بحران سے گزر رہی ہے، پیداوار سے زیادہ لاگت آ رہی ہے۔ چائے کی پتی کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور اس پر مزدوری الگ۔
فی الوقت انجم ایک ایسے کاروباری پارٹنر کے ساتھ کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو مضبوط ہو اورچائے کے باغ کو اچھی طرح سے سنبھال سکے۔ اس طرح چائے کا یہ باغ اس کے خاندان کے محفوظ ہاتھوں میں رہے گا اور انجم کو یقین ہے کہ تمام ذمہ داریاں مقررہ وقت پر ادا ہو جائیں گی۔