یوکرین : واپسی کے منتظر طلبا کے لیے جنگی ماحول کے ساتھ موسم بنا عذاب

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
یوکرین : واپسی کے منتظر طلبا کے لیے جنگی ماحول  کے ساتھ موسم بنا عذاب
یوکرین : واپسی کے منتظر طلبا کے لیے جنگی ماحول کے ساتھ موسم بنا عذاب

 

 

صابر حسین/نئی دہلی

ہندوستانی طلباء وشہریوں کو جنگ کی وجہ سے یوکرین سےانخلاء کے دوران سرحد پر مختلف قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے طلبا ٹرنوپل(Ternopil)میں طب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ پٹنہ کے رشب مشرا میڈیکل کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے آواز دی وائس کو بتایا کہ جس گروپ نے 25 فروری2022 کو ٹرنوپل چھوڑا تھا اس گروپ کو رومانیہ میں داخل ہونے میں 36 گھنٹے لگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یوکرین-رومانیہ سرحد تک پہنچنے کے لیے مسلسل گھنٹے کا سفر کیا تھامگر جب سرحد پر پہنچے تو پتا چلا کہ یہ ہندوستانی طلباء کے لیے بند ہے۔

وہاں انہیں مزید تین گھنٹے انتہائی سرد موسم میں انتظار کرنا پڑا اور اس کے بعد پانچ پانچ منٹ کے وقفے پر 10 لوگوں کو یوکرین کی سرحد پار کرنے کی اجازت دی جا رہی تھی۔

رشب فی الوقت رومانیہ میں ہیں، انہوں نے رومانیہ سے آواز دی وائس کو انٹرویو کے دوران یہ باتیں بتائی ہیں۔ تاہم انہیں جلدی راحت نہیں ملی۔

 انہوں نے بتایا کہ ہم آٹھ گھنٹے قطار میں کھڑے رہے۔ لائن میں آگے طلباء بیریکیڈ پر بہت زیادہ دھکیل رہے تھے جس کی وجہ سے سرحدی محافظوں کو ہوا میں گولی چلانا پڑی۔ ہم سرحد پار کرنے ہی والے تھے کہ انہوں نےاسے بند کردیا اورعلاقے کو خالی کرنے کا کہا اور ہمیں دوبارہ 5-6 گھنٹے انتظار کرنے کو کہا گیا۔

 رشب کا کہنا ہے کہ یہ پیٹرن تین دن تک بار بار دہرایا گیا جب کہ موسم بہت خراب ہے۔ ہم سب سردی سے کانپ رہے تھے اور میں اپنی ٹانگوں میں سنسنی محسوس کر رہا تھا۔خیال رہے کہ ان کے ساتھ تقریباً 2000 طلباء تھے اور اس سے بھی زیادہ پہنچ رہے تھے۔ تیسری رات ہم بغیر قطار میں 17 گھنٹے تک مسلسل کھڑے رہے اور اس کے بعد ہم نےسرحد عبور کیا۔

ان17گھنٹوں کے دوران تین برفانی طوفان آئے ، جس کا مقابلہ ہم سب نے بہتے آنسووں کے ساتھ کیا۔ مقامی لوگوں نے کھانا اور پانی مہیا کیا لیکن بہت سے لوگوں نے اس سے گریز کیا تاکہ ہمیں واش روم استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

وہ بتاتےہیں کہ بالآخر28 فروری2022 کی شب میں ان کا گروپ رومانیہ میں داخل ہوا۔ رشب نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ آپریشن گنگا کے تحت انہیں انخلاء کی پرواز میں کب شامل کیا جائے گا۔

انکت کنوجیا بھی تیسرے سال کے میڈیکل کے طالب علم نے جو کہانی سنائی وہ بھی اذیت ناک ہے۔ وہ چار بسوں کے قافلے میں انخلاء کے ایک گروپ کا حصہ تھا جس نے انہیں صبح 2 بجے کے قریب سرحد سے تقریباً 5 کلومیٹر دور چھوڑا تھا۔

awazurdu

مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کے بانا پورہ سے تعلق رکھنے والے انکت نے کہا کہ ہم انتہائی سرد حالات میں سرحد پر گئے اور دیکھا کہ یوکرین اور رومانیہ کے باشندوں کو بارڈر کراسنگ میں ترجیح دی جا رہی تھی۔

وہاں ایک کیفے تھا لیکن اس میں کھانا ختم ہو گیا تھا۔ پھر اکثر لوگوں نے سردی کی وجہ سے اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کے لیے جگہ کافی نہیں تھی۔ بعد میں یوکرین کے رضاکاروں نے باہر پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے الاؤ روشن کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ہندوستانی نمائندہ ان سے ملا اور وہ ہوائی اڈے کے قریب ایک اپارٹمنٹ بلاک میں تھے جہاں ہر اپارٹمنٹ میں 10 افراد رہائش پذیر تھے۔ پیر کی دیر رات وہ دہلی کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے۔

دوسرے طلباء کی طرح انکت کی سب سے بڑی پریشانی اب اپنی پڑھائی کو لے کر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی نے 12 مارچ 2022 تک تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد وہ آن لائن کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ جنگ جلد ختم ہو جائے اور ہر کوئی اپنی زندگی روز مرہ کی طرح جینے لگے۔