کیرالہ: انگریزی سیکھنے والی پہلی مسلم خاتون نہیں رہیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-08-2022
کیرالہ: انگریزی سیکھنے والی پہلی مسلم  خاتون نہیں رہیں
کیرالہ: انگریزی سیکھنے والی پہلی مسلم خاتون نہیں رہیں

 


آواز دی وائس، نئی دہلی 

زبان ہمارے احساسات اور الفاظ کی ترجمانی کا بہترین ذریعہ ہے، عام طور پر لوگ مادری زبان میں اپنے احساسات بیان کرتے ہیں، تاہم جب دوسرے تک اپنی بات پہنچانی ہو تو دیگر زبانوں کا سہارا لیتے ہیں۔

ایک زمانہ میں انگریزی زبان کو ہندوستان میں شجر ممنوعہ سمجھا تھا، حتیٰ بعض دانشور و رہنما انگریزی زبان کو سیکھنے سے منع کرتے تھے۔ مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں نے بھی انگریزی تعلیم سے سماج کو روکنے کی کوشش کی تھی، تاہم اس وقت ریاست کیرالہ میں ایک انوکھا واقعہ ہوا، جب کہ ایک مسلم لڑکی نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور تمام مخالفتوں کا مقابلہ زندہ دلی کے ساتھ کیا اور انگریزی سیکھنے کے بعد دیگر مسلم خواتین کے لیے مشعل راہ بنیں۔

ریاست کیرالہ میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی پہلی مسلمان خاتون مالیککل ماریومما کا 5اگست 2022 بروز جمعہ کو کننور ضلع کے تھلاسری میں انتقال ہوگیا۔ وہ 95 سال کی تھیں۔

اس میں شک نہیں کہ وہ  کیرالہ کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ایک علامت سمجھی جاتی تھیں۔ اور وہ  نئی نسلوں کے لیے ایک تحریک رہی ہیں۔

ماریومما کی موت پر تعزیت کرتے ہوئے ریاست کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے کہا کہ ہم نے ایک ایسی شخصیت کو کھو دیا ہے جنہوں نے تھلاسری کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے انمٹ نقش چھوڑے ہیں۔ قدامت پسندی کی رکاوٹوں کو برداشت کرتے ہوئے، انہوں نے انگریزی سیکھی اوردوسروں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کیا۔ 

awazthevoice

ماریومما انگریزی اخبار کا مطالعہ کرتی ہوئیں

وزیراعلیٰ نےمزید کہا کہ ماریومما نے مسلم لڑکیوں کے تعلیمی حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ وہ ہمیشہ ایک ترقی پسند چہرہ اور مذہبی ہم آہنگی کی علامت بھی بنی رہیں۔ ان کی موت نے ایک نسل اور ایک خطہ کو غم گین کر دیا۔ سنہ1927 میں پیدا ہونے والی، ماریومما کا تعلق تھلاسری کے ایک ممتاز مسلم خاندان سے تھا۔

پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعدانہوں نے مزید تعلیم کے لیے تھلاسری کے سیکرڈ ہارٹ کانوینٹ اسکول میں داخلہ لیا۔ وہ 1886 میں قائم ہونے والے اسکول میں 200 طلباء میں سے واحد مسلمان لڑکی تھی۔انہوں نے پانچویں جماعت میں انگریزی حروف تہجی کی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے اگرچہ انگریزی کی حروف تہجی سیکھ لی تھی تاہم انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی۔ بعد میں ان کے والد نے انہیں تسلی دی اور انگریزی کی پڑھائی جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ دوپہرکے وقت وہ کسی رشتہ دار کے گھر نماز پڑھنے بھی جایا کرتی تھیں۔ نیز وہ اسکول کی بھی جایا کرتی تھیں۔ اس کو دیکھتے ہوئےاسکول کی ٹیچرنےانہیں نماز کے لیے اسکول میں انتظام کیا۔

ماریومما کی اسکول ٹیچر نن تھیں۔انہوں نے دلجمعی کے ساتھ انہیں انگریزی سیکھنے میں مدد کی۔ اگرچہ مسلم کمیونٹی نے ماریومما کو بہت برا بھلا کہا، جو برقعہ پہن کر انگریزی پڑھنے اسکول جاتی تھی۔انہیں اپنی برادری کی طرف سے توہین کاسامنا کرنا پڑا لیکن ان کے والد او وی عبداللہ ان کی بہت مدد کی، اگرچہ وہ ایک مذہبی اسکالر تھے۔ انہوں نے انگریزی تعلیم جاری رکھنے میں مدد کی۔ 

 ان کے والد عبداللہ نے صرف دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن وہ انگریزی میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ماریومما نے 1943 تک کانونٹ کی تعلیم جاری رکھی، دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی شادی ہوگئی۔

شادی کے بعد انہوں نے اپنا سماجی کام جاری رکھنے کے لیے خود کو دیگرمسلم خواتین سے منسلک رکھا۔بعد میں انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کی سرگرمیوں پر توجہ دی۔ چوں کہ ماریومما انگریزی پڑھنے کی شوقین تھیں اس لیے مقامی لوگ انھیں انگریزی میں ماریومما کہتے تھے۔

ان کی ترغیب سے نہ صرف مقامی مسلم لڑکیوں اور خواتین نے انگریزی سیکھنی شروع کی بلکہ دور دراز کے علاقے کے لوگوں نے بھی انگریزی زبان کو اپنی ترجییہات میں شامل کر لیا۔