پنچایت الیکشن نے پیش کی مثال: دھرم اور ذات نہیں تعلیم کاکیاانتخاب

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 26-10-2021
ساگرعلیم اورمنت اللہ رحمانی
ساگرعلیم اورمنت اللہ رحمانی

 

 

سلطانہ پروین، پورنیہ

دہلی اور پنجاب کو زیادہ سے زیادہ مزدور فراہم کرنے والا سیمانچل اب تعلیم اور پڑھے لکھے لوگوں کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے۔ اس کا ثبوت سیمانچل میں جاری پنچایتی انتخابات کے دوران نظر آیا۔اس بار کئی پنچایتوں میں لوگوں نے ذات اور دھرم کو نہیں تعلیم کو ووٹ دیااور دوسروں کے لئے مشتعل راہ بن گئے۔

الگ راہ پر

سچ پوچھیں تو اس الیکشن میں نہ تو کوئی پارٹی شامل ہے اور نہ ہی ملک کے بڑے انتخابات جیسا کوئی بڑا ایشو ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر پڑھے لکھے، لوگوں کا انتخاب کریں تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ پورنیہ کی جابے پنچایت کے انجینئرنگ کی نوکری کرنے والے نوجوان امیدوار ساگر علیم کو پنچایت کی ترقی کے لیے ہر طبقے کے لوگوں نے ووٹ دیا تو ارریہ کی دھاما پنچایت نے بی ٹیک کرنے کے بعد اپنی کنسلٹنسی چلارہے،انجینئر امیدوار منت اللہ رحمانی کو مکھیابنایا۔ دونوں انجینئر امیدواروں کو منتخب کر کے لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ اس سال ہونے والے پنچایتی انتخابات میں وہ ذات، دھرم نہیں بلکہ ان سب سے اوپر اٹھ کر پڑھے لکھے افرادکو منتخب کریں گے، تعلیم وترقی کا انتخاب کریں گے۔

awazurdu

حیدرآباد جانے نہیں دیا

ساگر علیم نے 2019 میں حیدرآباد کے ایک انسٹی ٹیوٹ سے مکینیکل انجینئرنگ کی۔ اس کے بعد وہ حیدرآباد میں ہی کام کرتے تھے۔ ساگر کے والد علیم الدین طویل عرصے تک جابے پنچایت کے مکھیا تھے۔ علیم الدین کا چند ماہ قبل انتقال ہو گیا تھا۔

ساگر اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے حیدرآباد سے آئے تھے۔ جب ساگر کے واپس جانے کا وقت آیا تو گاؤں کے لوگوں نے ان سے کہا کہ تم نوکری سے صرف اپنا بھلا کرو گے۔ اگر ہر پڑھا لکھا آدمی گاؤں چھوڑ کر شہر میں نوکری کرے گا تو گاؤں کی ترقی کیسے ہو گی۔ اس لیے پنچایت کے بارے میں سوچو، نوکری کے بارے میں نہیں۔ اس طرح گائوں والوں نے انھیں مکھیابننے پر مجبورکردیا۔

awaz

لوگ کیا کہتے ہیں؟

بلیا کے رہنے والے شمعون عالم کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ ساگر جیسا پڑھا لکھا لڑکا پنچایت کی ترقی کی باگ ڈور سنبھالے۔ جابے پنچایت کے پٹواری منڈل کا کہنا ہے کہ ساگر علیم نوجوان ہے، پڑھا لکھا ہے۔ اس کا تعلق دوسری ذات سے ہے تو کیا ہوا، ہمارا مطلب گاؤں اور پنچایت کی ترقی ہے۔ اس لیے ہم نے ایک پڑھے لکھے انجینئر کو ووٹ دے کر جتایاہے۔

راجکمار پاسوان کا کہنا ہے کہ ساگر پڑھا لکھا ہے۔ علاقے کے نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھائے گا۔ وہ پنچایت کو بھی نئی توانائی سے ترقی دلائے گا اور علاقے میں تعلیم کی ترقی کے لیے کام کریگا۔ دلیپ پاسوان کہتے ہیں کہ ہماری پنچایت کو ایسے ہی پڑھے لکھے نمائندوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک لڑکا ہے، پڑھا لکھا، دانشور۔ اس لیے ہم نے ذات پات سے اوپر اٹھ کر اسے چنا ہے۔

ساگرعلیم کیا کہتے ہیں؟

ساگر علیم کا کہنا ہے کہ نوکری چھوڑ کر الیکشن کی طرف آنے کا فیصلہ لینا آسان نہیں تھا۔ لیکن لوگوں کے اصرار کے بعد ہم نے بھی سوچا کہ پڑھے لکھے لوگوں کی بھی معاشرے کے تئیں کچھ کوئی ذمہ داری ہے۔ اس لیے ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا سوچا۔ زندگی کے تمام شعبوں اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تعاون حاصل ہوا۔ پنچایت میں تعلیم کی ترقی اور عوام کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔

ایک اورانجینئرمکھیا

ارریہ دھاما پنچایت کے الیکٹرانک انجینئر منت اللہ رحمانی نے کروکشیتر سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ کیمپس سلیکشن میں نوکری مل گئی لیکن نوکری نہیں کی اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پرائیویٹ کنسلٹنسی کا کام شروع کر دیا۔ 2015 میں پنچایت انتخابات کے دوران جب والد الیکشن میں اترے تو وہ ان کے لیے انتخابی مہم چلانے گاؤں آئے۔ 20 دن تک پنچایت کا دورہ کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ پنچایت کئی معاملات میں بہت پیچھے ہے۔

یہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ منت اللہ رحمانی کا کہنا ہے کہ انہیں پہلی بار اپنی پنچایت اور اس کی حدود کے مسئلے کا علم ہوا۔ نیز پہلی بار پنچایت کے لوگ بھی ان سے واقف ہوئے۔ جب وہ واپس آئے تو انتخابی مہم کے دوران جن لوگوں سے ان کا تعلق بنا تھا، وہ ہمیشہ ان سے رابطے میں رہتے اور گاؤں کی سوسائٹی کے لیے کام کرنے کو کہتے تھے۔

جس کے بعد انہوں نے گاؤں میں آکر سماج کی ترقی، لوگوں کے مسائل کو دور کرنے کے لیے کام کرنے کا عزم کیا۔ منت اللہ کا کہنا ہے کہ سماج میں ہر مذہب اور ذات کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن لوگوں نے ذات پات سے اوپر اٹھا کر انسانیت کو آگے بڑھا کر انہیں ووٹ دیا اور ترقی کی باگ ڈور پنچایت کے حوالے کی۔