یکجہتی کی مثال:آمنے سامنے ہیں مندراور مسجد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-09-2021
مندر۔مسجد،ساتھ ساتھ
مندر۔مسجد،ساتھ ساتھ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سنبھل

ہندوستان، صدیوں سے قومی یکجہتی اوربھائی چارہ کی مثالیں پیش کرتا رہا ہے۔ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پیارمحبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال سنبھل میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں مندراور مسجد آمنئے سامنے واقع ہیں مگران کے بیچ کبھی کوئی جھگڑانہیں ہوا۔ یہاں ہندواور مسلمان ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک طرف مسجدسے اذان کی آواز آتی ہے تودوسری طرف مندرمیں گھنٹیاں بجتی ہیں،ایک جانب اگربتی کی خوشبواٹھتی ہے تودوسری جانب سے لوبان کی مہک ماحول میں پاکیزگی گھولتی ہے۔

مثالی یکجہتی

سنبھل شہر کے کوٹ پوربی محلہ میں ایک جگہ پرواقع ہیں رانی والامندر اور ایک رات کی مسجد۔ دونوں مذہبی مقامات کے درمیان صرف ایک سڑک ہے جو15 سے 20 فٹ چوڑی ہے۔ یہ سڑک ان دونوں عبادت گاہوں کو الگ کرتی ہے۔ تاہم ، اس جگہ پر پوجا یا نماز کے لیے کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوااور نہ ہی کوئی کشیدگی پھیلی۔ ایک طرف مندر کی گھنٹی بجتی ہے اور دوسری طرف اذان بلند ہوتی ہے مگر کسی کوکسی سے کوئی پریشانی نہیں۔

کئی بار شہر کے حالات خراب ہوئے مگر یہاں آرتی پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی اذان میں کوئی خلل پڑا۔ محلہ کوٹ پورب میں آبادی مخلوط ہے لیکن ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق ہے اور اس حق کا سب احترام کرتے ہیں۔ سبھوں نے فرقہ وارانہ اتحاد ، ہم آہنگی اور محبت کی ایک منفرد مثال قائم کی ہے۔ یہاں کے لوگ مذہبی جذبات بھڑکانے کی سازشوں کو ناکام کرتے رہے ہیں۔ اگر کوئی ذات پات یا مذہبی خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

مندر۔مسجدآمنے سامنے

رانی والا مندر یعنی کلکی مندر اور ایک رات والی مسجد کا آمنے سامنے ہونا بھی اپنے آپ میں باہمی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔ صبح اور شام مندر میں آرتی کی جاتی ہے ، گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں ، بھجن کیرتن بھی کیا جاتا ہے۔ شہر کے علاوہ ملک کے کئی صوبوں سے لوگ کلکی مندر میں درشن کے لیے آتے ہیں۔

کیاہے تاریخ؟

شہر کے مشہور مندروں میں درشن کرنے کا سلسلہ چلتا رہتاہے نیزمسجد میں پانچ وقت اذان اور نمازکاسلسلہ بھی جاری رہتاہے۔ 1801 میں شمالی ہندوستان میں انگریزوں کے ساتھ جنگ ​​میں نواب شجاع الدولہ کی شکست کے بعد ، ٹونک کے نواب نواب امیر خان سنبھلی نے انگریزوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ 1805 میں نواب امیر خان سنبھلی نے مراٹھا فوج کے ساتھ مل کر روہیل کھنڈ کے مغربی حصے پر حملہ کیا۔

اسے امروہہ کے قریب کیپٹن مرے کی فوج نے شکست دی۔ دوسری طرف مراٹھا فوج بھی افضل گڑھ پہنچ گئی۔ امیر خان نے پھر مراٹھوں کے ساتھ مل کر مراد آباد فتح کیا۔

سنبھل کے منوکامنا روڈ کی جانب سے سنبھل شہر میں داخل ہوئے۔

منوکامنا روڈ پرمحلہ کوٹ پورب کے دائیں اور بائیں طرف امیر خان کی فوج نے ڈیرے ڈالے۔ تب امیر خان نے فوجی کیمپ کے اطراف میں راتوں رات ایک مسجد بنائی۔ اس لیے اس مسجد کا نام ایک رات کی مسجدرکھاگیا۔

سال 1773 میں ، ہولکر رانی اہلیابائی نے سنبھل میں 1766-1796 کے دوران حکومت کی۔ اس دوران ، اہلیا بائی کوٹ پورب کی طرف جانے والے موڑ کے دائیں جانب منوکامنا روڈ پر ٹھہرتی تھیں۔

ان کے جانے کے بعد ، سال 1805 میں ، ہولکر حکمران کے حکم پر ، مراٹھا سردار نے رانی اہلیابائی کی یاد میں رانی والا مندر تعمیر کیا۔ لوگوں کا اس مندر پر وشواس ہے۔

کیاکہتے ہیں پجاری اور امام؟

پجاری مہیندر شرما کا کہنا ہے کہ کلکی مندر قدیم ہے۔ لوگوں کا مندر میں یقین ہے۔ بھگوان شری کلکی کی پوجا کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ منت مانگنے بھی آتے ہیں۔ بھگوان شیو کے مندر میں ہر روز جل ابھشیک بھی کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب مولانا فیضان اشرف کا کہنا ہے کہ سنبھل کے لوگ امن کو پسند کرتے ہیں۔ ایک رات والی مسجد مسلم برادری کی طرف سے قابل احترام ہے اور مندر اور مسجد کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔ لیکن یہ علاقہ ہم آہنگی کی مثال ہے۔