طالبان سے مذاکرات کا مطالبہ، میڈیا غلط فہمی نہ پھیلائے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
طالبان سے مذاکرات کا مطالبہ
طالبان سے مذاکرات کا مطالبہ

 


 آواز دی وائس، نئی دہلی

ہندوستان کے مختلف سابق وزرا، صحافیوں اور آر ایس ایس کے نظریات سے تعلق رکھنے والوں نے بذریعہ خط حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات جاری رہناچاہئے۔

اس کے علاوہ اس گروپ نے زرد صحافت کی بھی سرزنیش کی ہے کہ وہ طالبان کے تعلق سے میڈیا میں زہر افشانی نہ پھیلائے۔

ہندوستان کے سابق وزیرخزانہ یشونت سنہا اور کے نٹور سنگھ سمیت سابق وزرائے خارجہ، سفارت کاروں، دانشوروں اور صحافیوں کے ایک گروپ نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کے تعلق سے اپنے موقف کو واضح کریں اور ان سے مذاکرات جاری رکھیں۔

افغانستان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انہوں نے برسراقتدار جماعت بی جے پی کا نام لیے بغیر کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کو انتخابی فوائد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستانی سماج کو تفرقہ میں ڈالنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور ایسی کسی بھی کوشش سے سختی سے نمٹا جانا چاہئے۔

خود کو افغانستان کا ہندوستانی دوست کہلانے والے اس گروپ نے ایک عوامی اپیل جاری کی ہے جو ہندوستانی ذرائع ابلاغ خصوصا الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے کی جانب سے طالبان مخالف مسلسل پروپیگنڈے کے پس منظر میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

اس گروپ نے دوحہ(قطر) میں ہونے والے طالبان اور ہندوستان کے پہلے سرکاری مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مشکل وقت میں افغانستان کے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

جب کہ طالبان امن، قومی مفاہمت اور قومی تعمیر نو کی جانب امید کی ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔

انہوں نے حملہ آور امریکہ اور اس کی نیٹو اتحادی فوج کو شکست دینے پر افغان عوام کی بھی تعریف کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے قابل فخر، محب وطن اور بہادر عوام نے ہر حملہ آور فوج کو شکست دی ہے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کی قوتوں کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خط کے متعلقہ حصہ

انھوں نے جو خط لکھا ہے اس کی خاص باتیں درج ذیل ہیں:

افغانستان کے ہندوستانی دوست امن، قومی مفاہمت اور قومی تعمیر نو کے لیے اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔

افغانستان امن، قومی مفاہمت اور قومی تعمیر نو کی طرف امید کی ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔

افغانستان کے قابلِ فخر، محب وطن اور بہادر عوام نے ہر حملہ آور فوج کو شکست دی ہے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کی قوتوں کا مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آزادی ہر قوم کا ناقابل تسخیر حق ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، غریب ہو یا امیر۔

ہم افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

افراتفری کے حالات نے بعض دہشت گرد گروہوں کو بے گناہ افغانوں اورغیر ملکی شہریوں کو قتل کرنے کاموقع دیا ہے، جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ 

ہم 26 اگست2021 کو کابل میں ہونے والے وحشیانہ خودکش حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں؛ جس میں متعدد افغان اور ایک درجن سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان کے دوست ہونے کے ناطے ہمیں اس ملک کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش ہے۔

ہم افغان عوام کی سلامتی، فلاح و بہبود اور قومی امنگوں کی پرواہ کرتے ہیں کیونکہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ہزاروں سال پرانے ثقافتی تعلقات رہے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے افغان بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں کیونکہ ہندوستان اور افغانستان دونوں امن، آزادی، انصاف اور آفاقی بھائی چارے کی بنیادی انسانی اقدار کو پسند کرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے تمام ممالک خصوصا ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کو امن، ہم آہنگی اور اجتماعی ترقی کا خطہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ خواب ہندوستان کی نوآبادیاتی مخالف جدوجہد کے دوران مہاتما گاندھی اورسرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے درمیان قریبی شراکت داری کی بہترین علامت ہے۔

امن، استحکام اور تنازعات کی موجودہ صورتحال کا خاتمہ ہی افغانستان کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

یہ افغانستان کے تمام اندرونی اسٹیک ہولڈرز اور عالمی برادری خصوصا علاقائی ممالک کی اجتماعی ذمہ داری ہے، اس کے لیے انہیں کوشش کرنی چاہئے۔

ہمیں خدشہ ہے کہ اگر افغانستان میں امن و استحکام خراب ہو جاتا ہے تو دہشت گردی، مذہبی تنازعات اور علاقائی خلفشار کی آگ ہندوستان تک پہنچ سکتی ہے۔

 اپیل 

افغانستان میں طالبان اور دیگر سیاسی قوتوں سے ہماری اپیل ہے کہ افغانستان کو ایک جامع حکومت کی ضرورت ہے جو چار دہائیوں کی طویل جنگوں اور تشدد کے بعد قومی مفاہمت کو آسان بنائے۔

اس لیے ہم طالبان اور دیگر سیاسی قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک بین الافغان امن عمل شروع کریں جس کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت وہاں قائم ہو۔