مغربی بنگال میں انتخابی تشدد۔ کون روکے گا اور کیسے ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-05-2021
انتخابی تشدد
انتخابی تشدد

 

 

آخرکب رکے گایہ تشدد؟کب بند ہوگاخونریزی کا یہ سلسلہ؟ جمہوری اداروں کا احترام کب کیا جائےگا؟ یہ سوال اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کہ ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتابنرجی جب وزیراعلیٰ کےطور پر حلف لے رہی تھیں ،ٹھیک اسی وقت بی جے پی کے ممبران اسمبلی اور کارکن ،پارٹی صدر جے پی نڈاکی قیادت میں احتجاج کر رہے تھے۔ وہ تشدد کے خلاف پارٹی آفس میں حلف لے رہے تھے۔ یعنی اگرچہ ممتابنرجی ،بنگال کی وزیراعلیٰ بن گئیں مگر ان کے دامن پرتشددکوقابو میں نہ رکھنے کا داغ بھی لگا۔

بنگال کے تشدد کے خلاف بی جے پی ہی نہیں بلکہ کانگریس، سی پی ایم اور مجلس اتحادالمسلیمن نے بھی آواز اٹھائی ہے۔دوسری طرف وزیراعظم مودی نے فون کرکے ریاستی گورنرسے حالات کی جانکاری لی ہے۔نیزقومی حقوق انسانی کمیشن بھی حرکت میں آیا ہے اور وزارت داخلہ بھی سرگرم ہوگیاہے۔

مرکزی وزارت داخلہ نے اسمبلی چناﺅ کے نتائج کے بعد ریاست میں تشدد کے بارے میں مغربی بنگال سرکار سے رپورٹ مانگی ہے۔ ریاست کے بہت سے حصوں میں ترنمول کانگریس کی جانب سے مبینہ تشدد کے دوران کئی لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ وزارت داخلہ نے مغربی بنگال سرکار کو ایک خط لکھا ہے‘ جس میں اُس نے چناﺅ نتائج کے بعد بی جے پی امیدواروں پر مبینہ حملے کے واقعات پر رپورٹ طلب کی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے نتیجوں کے بعد ترنمول کانگریس کے کارکنوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر تشدد کے خلاف آج پورے ملک میں دھرنا دے رہی ہے۔ بی جے پی نے کہاہے کہ پارٹی کے سبھی تنظیمی منڈلوں میں احتجاج کیا جائے گا اور کووڈ سے متعلق سبھی ضابطوں اور احتیاطی اقدامات پر عمل کیا جائے گا۔ اِدھر بی جے پی کے صدر جے پی نڈا متاثرہ پارٹی کارکنوں سے ملنے کیلئے ریاست کے دو دن کے دورے پر گئے ہوئے ہیں۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے نڈا نے کہاکہ پوری پارٹی متاثرہ کارکنوں کے ساتھ کھڑی ہوگی اور جمہوری طریقے سے اِس تشدد کا مقابلہ کرے گی۔

ادھر مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے بعد ہونے والے تشدد پر از خود نوٹس لیتے ہوئے قومی انسانی حقوق کمیشن نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے اور ریاست میں بھیجنے کا حکم دیا ہے ۔ کمیشن نے اپنے حکم میں کہا کہ "کمیشن نے شہریوں کے زندگی کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے معاملے پر از خود نوٹس لیا ہے اور اپنے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (انوسٹی گیشن) سے کہا ہے کہ وہ کمیشن کے تحقیقاتی ڈویژن کے افسران کی ایک ٹیم تشکیل دیں۔ ساتھ ہی موقع پر حقیقت کی چھان بین کرکے جلد سے جلد یا دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کریں۔ انہوں نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ مبینہ طور پر سیاسی کارکنوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جھڑپ ہوئی، پارٹی کے دفاتر کو آگ لگا دی گئی، کچھ مکانات توڑ دیئے گئے اور قیمتی سامان بھی لوٹ لیا گیا۔

بی جے پی اور ترنمول کانگریس کے الزامات اور جوابی الزامات اپنی جگہ مگر یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں کبھی بھی مغربی بنگال میں کوئی بھی الیکشن پرامن نہیں ہوا۔ہر الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی تشدد کی لہرآتی ہے جس میں عام لوگوں کی زندگی کا چین وسکون برباد ہوجاتاہے۔پہلے سی پی آئی ایم، کانگریس اور ترنمول کانگریس کے کارکنوں کے بیچ اس قسم کی چھڑپیں ہوتی تھیں اور اب جب کہ بی جے پی صوبے میں اصل اپوزیشن بن چکی ہے تو اس کے کارکن بھی اس تشدد کا حصہ ہیں۔