مغل عہدکی تیسری عید،عیدگلابی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-03-2021
ایک مغل پینٹنگ میں ہولی کا منظر
ایک مغل پینٹنگ میں ہولی کا منظر

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

عیدالفطراور عیدالاضحی کے بارے میں آپ ضرورجانتے ہونگے مگرکبھی تیسری عیدکے متعلق سناہے؟جی ہاں!ایک تیسری عید کا ذکربھی ہندوستانی تاریخ کی کتابوں میں آتاہے۔ یہ عید کیا ہے؟ کب منائی جاتی ہے؟ کیسے منائی جاتی ہے؟اس بارے میں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

موسم بہارکاپیامی

آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک قدیم ملک ہے،جہاں آئے دن مختلف تیج تیوہار منائے جاتے ہیں۔انھیں تیوہاروں میں سے ایک ہولی بھی ہے۔ہولی موسم بہار میں منایا جانے والا ایک اہم تہوار ہے. یہ تہوار ہندو تقویم کے مطابق پھاگن ماس کی پورے چاند کو منایا جاتا ہے۔ رنگوں کا تہوار کہا جانے والا یہ تہوار روایتی طور پر دو دن منایا جاتا ہے۔ ہندوستان اور نیپال میں زیادہ اہمیت سے منایا جاتا ہے۔

ہولی کی دھوم

یہ تہوار بہت سے دیگر ممالک جن میں ہندو رہتے ہیں وہاں بھی دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔پہلے دن کو الائو جلائی جاتی ہے، جسے الائو دہن یا ہولیکا دہن کہتے ہیں۔جب کہ دوسرے دن لوگ ایک دوسرے پر رنگ، عبیر، گلال وغیرہ پھینکتے ہیں، ڈھول بجا کر ہولی کے گیت گائے جاتے ہیں اور گھر گھر جا کر لوگوں کو رنگ لگایا جاتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ہولی کے دن لوگ پرانی تلخی کو بھول کر گلے ملتے ہیں اور پھر سے دوست بن جاتے ہیں۔ راگ،رنگ کا یہ مقبول تہوار موسم بہار کا پیامی مانا جاتا ہے۔ پھاگن ماہ میں منائے جانے کی وجہ سے اسے ’پھگوا‘ بھی کہتے ہیں۔

،محل میں ہولی کامنظر

ہولی کا تہوار وسنت پنچمی سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اسی دن پہلی بار گلال اڑایا جاتا ہے۔ اس دن سے پھاگ اور دھمار کاگانا شروع ہو جاتا ہے۔ کھیتوں میں سرسوں کھل اٹھتی ہے۔ باغوں میں پھولوں کی پرکشش چھٹا چھا جاتی ہے۔ پیڑ، پودے، جانور،پرند اور انسان سب مسرت سے بھر جاتے ہیں۔ کھیتوں میں گندم، مکئی اٹھلانے لگتی ہیں۔ کسانوں کا دل خوشی سے ناچ اٹھتا ہے۔ بچے، بوڑھے تمام افراد ڈھول، تاشے، جانجھ، منجیرے کی دھن پر رقص ورنگ میں ڈوب جاتے ہیں۔

تاریخ کے آئینے میں

تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ قدیم زمانے سے ہندوستان میں ہولی کا تہوار منایا جارہا ہے لیکن مشرقی ہند میں یہ زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا بیان کئی قدیم مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔اس کے علاوہ تاریخی کتابوں میں بھی اس بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ مشہور سیاح البیرونی نے بھی اپنی تاریخی سفر ی یادداشتوں میں ہولی کاذکر کیا ہے۔ ہندوستان کے کئی مسلم شاعروں نے اپنی اردواور فارسی تخلیقات میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہولی اتسو صرف ہندو ہی نہیں مسلمان بھی مناتے ہیں۔

اکبرکی ہولی

مغل دور کی مستند تاریخی کتابوں میں بادشاہ اکبر کا اپنی بیویوں کے ساتھ ہولی کھیلنے کا ذکر ملتا ہے۔بادشاہ اکبرکے تعلق سے تویہاں تک مشہورہے کہ وہ رنگوں کے حوض میں ڈبکی لگاتاتھا۔

جہانگیرکی ہولی

مسلم عہد حکومت میں ہولی کا رواج بہت عام تھا اور بادشاہوں کے درباروں میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ اکبرکی طرح جہانگیر بھی نورجہاں کے ساتھ ہولی کھیلا کرتا تھا۔ اس عہد کی بہت سی ایسی پینٹینگ ملتی ہیں جن میں جہانگیرکوہولی کھیلتے ہوئے دکھایاگیاہے۔

شاہجہاں کی ہولی

شاہ جہاں کے وقت تک ہولی کھیلنے کا انداز بدل گیا تھامگر سلسلہ جاری تھا۔۔تاریخ میں بیان ہے کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں ہولی کو ”عید ِگلابی“ یا ”عید ِ آب پاشی“ (رنگوں کی بوچھارکا تہوار) کہا جاتا تھا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کی ایک ایسی پینٹنگ ملتی ہے جس میں اسے لال قلعے کے رنگ محل میں ہولی کھیلتے ہوئے دکھایاگیاہے۔

بہادرشاہ ظفرکی ہولی

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں مشہور ہے کہ ہولی پر ان کے وزیر انہیں رنگ لگانے جایا کرتے تھے۔بہادرشاہ ظفرکا مشہورکلام ہے:

کیوں موپہ رنگ کی ماری پچکاری

دیکھو کنورجی دوںگی گاری

الغرض کہ پوری مغل بادشاہت کے دوران ہولی کا تہوار بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا۔ اس دن دربارہی نہیں سجتاتھا بلکہ دلی کے لال قلعے میں میلہ بھی لگتا تھا۔رنگ لگانے کے ساتھ ساتھ ساتھ گیت اور سنگیت کا دور بھی چلتاتھا۔ایسی محفلوں کا لطف شہزادے اور شہزادیاں اٹھایا کرتے تھے۔

مغل عہدکی ہولی

مغلوں کی راہ پر

مغلوں کے بعد انگریزوں کا دور آیا اور انگریزافسران بھی ہولی کے تہوار میں حصہ لیا کرتے تھے۔ایسے افسروں میں دلی کاایک اعلیٰ افسرسر تھامس میٹکاف بھی شامل تھا۔ ہندوستان بھر میں کئی ریاستیں قائم تھیں جہاں ہولی منانے کا رواج عام تھا۔ دکن کے حکمراں محمد قلی قطب شاہ کے ہاں ہولی کا اہتمام ملتاہے۔اس نے توہولی پرنظم بھی لکھی ہے۔