بین مذہبی شادی پرقانون ہاتھ میں نہ لیں:علما کرام

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
بین مذہبی شادی پرلڑکی کو زودکوب کرنے والے پولس گرفت میں
بین مذہبی شادی پرلڑکی کو زودکوب کرنے والے پولس گرفت میں

 

 

 

بچوں کی دینی تربیت ضروری۔

نئی دہلی

اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں ایک مسلم لڑکی نے غیرمسلم نوجوان سے مندر میں شادی کرلی۔ اس معاملے نے لڑکی کے رشتہ داروں کو ناراض کردیا۔ انھوں نے اسے پکڑلیا اور جوتے، چپلوں سے بری طرح پیٹ دیا۔

اس واقعے کی خبرمیڈیا میں آئی اور پولس نے بھی کچھ لوگوں کے خلاف معاملہ درج کردیا۔ اس واقعے پر کئی سماجی کارکنوں نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

ممبئی کے سماجی کارکن اورحاجی علی درگاہ کے ذمہ دار مولانامنظوراحمد ضیائی نے آوازدی وائس کو بتایاکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہرشخص کو اپنے طریقے سے جینے کی آزادی ہے۔ کسی کو اس بات کی آزادی نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے۔

مفتی منظوراحمدضیائی

انھوں نے مزید کہا کہ اگر مسلمان لڑکیاں ،غیرمسلموں کے ساتھ شادی کررہی ہیں،تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کی دینی تربیت نہیں ہوئی ہے۔اس کے لئے ہمارے قائدین ذمہ دار ہیں جنھوں نے مسلم سماج کے نچلے طبقے کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کی۔

انھوں نے نے کہا کہ حیدرآباداور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ایسے بہت سے واقعات دیکھے گئے ہیں جب مسلمان لڑکیوں نے ارتدادکی راہ اپنائی۔ اس کا سبب بچوں کو دین سے دور رکھنااور اسلامی تربیت کا نہ ہونا ہے۔

ادھرامبیڈکرنگر کے ایک عالم دین مولانا عتیق الزماں نے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بین مذہبی شادی کے واقعات اس ملک میں عام ہیں۔ ایسے واقعات عموماً گھر والوں کو مشتعل کردیتے ہیں۔ حالانکہ ملک میں آئین وقانون موجودہے۔ کسی کو بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہئے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی دینی تربیت کریں تاکہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔