دلیپ کمار کے انتقال پر دیوبند سوگوار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-07-2021
دلیپ کمار
دلیپ کمار

 

 

دیوبند/فیروز خان 

بولی وڈ انڈسٹری کے لیجنڈری اداکار و شہنشاہِ جذبات محمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر عام ہوئی تو بولی وڈ سمیت پوری دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ محمد یوسف خان کے انتقال پر ملال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ شاعر او اتر پردیش اردو اکیڈمی کے سابق چیئر مین ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ تقریبا نصف صدی تک فلمی دنیا پر چھائے رہے دلیپ کمارنے محض 64 فلموں میں اداکاری کی اور سب سے زیادہ ایوارڈز حاصل کیے۔ فلم کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدانوں کے علاوہ قومی اور ملی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔

دلیپ کمار سے ان کی پہلی ملاقات دہلی کے ڈی سی ایم مشاعرہ اور ممبئی کے دھوبی تالاب علاقہ میں منعقد ایک مشاعرہ میں ہوئی جس میں مقبول فدا ء حسین،احمد فراز، ندافاضلی،سادھنا کھوٹے،اوم پرکاش،مکری،جگجیت سنگھ،بلراج ساہنی،دھرمیندر،محمود اور جانی واکر سمیت فلمی دنیا سے کافی لوگ موجود تھے، اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا،اللہ نے ان کو یہ اعزاز دیا تھا کہ وہ فلموں کے اداکار بھی تھے،بہترین مقرر بھی تھے اور انکی عربی،اردو،ہندی،پشتوں،انگریزی اور فارسی زبان پر مضبوط پکڑ تھی،مشاعرہ میں لوگ جتنا شاعروں کے کلام کو سننے کے منتظر ہوتے تھے اس سے زیادہ وہ دلیپ کمارکی گفتگو کو سننے کے بھی منتظر رہتے تھے،ان کا لہجہ،ان کی آواز کی کھنک اور ان کا انداز بیان ایسا تھا کہ سامنے والا اپنے ہوش کھو بیٹھتا تھا اللہ نے جن صلاحیتوں سے ان کو نوازا تھا وہ ہر ایک کے مقدر میں نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ دلیپ کمار کے جانے سے جتنا نقصان فلمی دنیا کو ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان علمی دنیا کو بھی ہوا ہے۔وہ شعر وسخن کے بہت بڑے پرستار تھے،وہ مشاعرہ میں بڑے انہماک اور ڈوبکر تمام شاعروں کو سنا کرتے تھے،کئی ہزار شعر،غزلیں اور نظمیں ان کو زبانی یاد تھیں وہ جب انہیں پڑھتے تھے تو ہزاروں لوگ انہیں داد دیا کرتے تھے،ایسے بہت کم لوگ موجود ہیں جن کی اردو زبان یا اردو شاعری سے وابستگی ہو،دلیپ کمار اردو شاعری کے بڑے پرستاروں میں سے ایک تھے،ڈاکٹر نواز دیوبندی نے کہا کہ فلمی دنیا میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی طرح شوہر اور بیوی کی طرح زندگی گزارنے والے لوگ بہت ہی کم ہیں،دلیپ کمار کا عشق اپنی جگہ مگر سائرہ بانوں نے جو محبت دلیپ کمار سے کی اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے،معذوری کے بعد ایسی خدمت گزار فلمی ادا کارہ میں نے نہ دیکھی،نہ پڑھی،نہ سنی،دلیپ کمار ایک فلمی اداکار کا نام نہیں بلکہ فلمی دنیا کی تاریخ کا سب سے سنہرا باب ہے۔

اللہ مرحوم کی مغفرت،جنت الفردوس میں اعلی مقام اور پسماندگان کو صبرعطا ء فرمائے۔فلم کریٹک و نقاد کمل دیوبندی نے کہا کہ فلم ’جوار بھاٹا‘ کے بعد سے شہرہ آفاق اداکار دلیپ کمارنے فلمی صنعت پر ایک طویل عرصے تک راج کیا اور آن، انداز، دیوداس، گنگا جمنا،یہودی،کوہ نور،لیڈر،نیادور، رام اور شیام، بیراگ، شکتی، کرما، سوداگر جیسی مشہور فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے اپنی فطری اداکاری کے ساتھ مختلف النوع کرداروں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دنیا بھر کے شائقین اور مداحوں کا دل جیتنے کے ساتھ ہی انہوں نے شہرت کی بلند ترین منزلیں طے کیں۔ وہ اپنی خوبصورت شکل و صورت کے ساتھ ہی سنجیدہ آواز میں مکالموں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔کمل دیوبندی نے بتایا کہ دلیپ کمار کی سنگ دل، امر، اڑن کھٹولہ، آن، انداز، نیا دور، مدھومتی، یہودی اور مغل اعظم جیسی چند فلمیں ہیں جن میں کام کرنے کے دوران انہیں شہنشاہ جذبات کا خطاب دیا گیا۔ لیکن انہوں نے فلم کوہ نور، آزاد، گنگا جمنا، گوپی اور رام اور شیام میں ایک مزاحیہ اداکار کی شناخت بنائی اور یہ ثابت کیا کہ وہ لوگوں کو ہنسا نے کا فن بھی جانتے ہیں۔ لیڈر میں وہ ایک انوکھے رول میں نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ دلیپ کمار کی اداکاری میں ایک ہمہ جہت فنکار دیکھا جاسکتا ہے جو کبھی جذباتی بن جاتا ہے تو کبھی سنجیدہ اور روتے روتے آپ کو ہنسانے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ ان کی وجیہہ شخصیت کو دیکھ کر برطانوی اداکار ڈیوڈ لین نے انہیں فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ میں ایک رول کی پیشکش کی لیکن دلیپ کمار نے اسے ٹھکرا دیا۔کمل دیوبندی نے بتایا کہ دلیپ کمار نے 1998 میں فلم‘ قلعہ’میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا گیا، انہیں ملک کی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی دیا گیا گیا اور پڑوسی ملک پاکستان کی حکومت نے 1998ء میں ان کو سب سے بڑے سیویلین اعزاز نشان پاکستان سے بھی نوازا تھا جو کہ سابق وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کو بھی مل چکا ہے۔ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہری اعزاز، 2015 میں پدم و بھوشن سے بھی ان کونوازا گیاتھا،اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام اور اہل خانہ کو صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا ء فرمائے