دارالعلوم دیوبند: نائب مہتمم و مقبول استاذ مولانا عبدالخالق سنبھلی کا کا انتقال

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-07-2021
مولانا عبدالخالق سنبھلی کا انتقال
مولانا عبدالخالق سنبھلی کا انتقال

 

 

دیوبند30:جولائی(فیروز خان)

دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم و مقبول استاذ مولانا عبدالخالق سنبھلی کا کل(جمعہ کے روز) ساڑھے تین بجے انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا مرحوم کافی دنوں سے علیل تھے۔ بیچ میں طبیعت میں کچھ افاقہ بھی ہوا تھا لیکن ادھر دو تین دنوں سے حالت سنگین تھی۔ کل پورے دن غشی طاری تھی، انہوں نے کچھ بھی کھایا پیا نہیں، رات ساڑھے گیارہ بجے علاج کے لیے مظفر نگر کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور آج ساڑھے تین بجے یہ آفتاب علم ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

مولانا محترم کی پیدا ئش قصبہ سنبھل،ضلع مراد آباد میں ۴‘جنوری ۱۹۵۰ کو ہو ئی، آپ کے والد محترم کا اسم گرامی نصیر احمد تھا جو کہ ایک خوش اطوار، خو ش مزاج، رقیق القلب، متواضع، سادگی پسنداور تمکنت سے خالی انسان تھے، وہ ایک خوش گو شا عر بھی تھے۔آپ نے اپنے گھر کے قریب مدرسہ‘خیر المدارس سے تعلیم کا آغازکیا۔ اس وقت وہاں مولانا مفتی محمد آفتاب علی خان مدرس تھے،کچھ دنوں بعد مفتی آفتاب علی خا ن مدرسہ شمس العلوم منتقل ہو گئے، تو آپ بھی وہیں چلے گئے۔

اس مدرسہ میں آپ نے حافظ فرید الدین سے قرآن کریم حفظ کی تکمیل کی۔ فارسی اور ابتدائی عربی سے شرح جا می تک کی تمام کتب حضرت اقدس مو لانا مفتی محمدآفتا ب خان سے پڑھیں اور پھر ۱۹۶۸میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین طباع اور غیر معمولی دماغی قوت و صلاحیت سے معمور تھے، اس لئے زمانہ طا لب علمی میں ہی دارالعلوم دیوبند پہونچ کر آپ کے علمی گوہر کھلنے لگے اور اسی بنیاد پر آپ ہمیشہ اپنے ہم درسوں اور ہم چشموں سے ممتاز رہے،کم وبیش پانچ سال آپ دارالعلوم دیوبند میں رہے اس دوران آپ نے اپنے تمام اوقات کو تعلیمی مشاغل میں ہی صرف کیا،اسباق کی پا بندی، مطا لعہ میں انہماک، اساتذہ والات علم کا مکمل احترام اور اعمال پر مواظبت جیسے عمدہ اوصاف آپ کی علامت تھے۔

دارالعلوم دیوبند کے زمانہ قیام میں کتب متداولہ کی تکمیل وقت کے عبا قرہ فن اور اساطین علم کے سا منے ہو ئی، جس میں بخاری شریف مو لانا فخرالدین مرادآبادی ؒ، مو لانا قاری محمد طیبؒ، مو لانا مفتی محمود الحسن ؒ اور مولانا شریف الحسن سے پڑھی، مولانا نصیر احمد خان ؒ سے طحاوی شریف اور التصریح پڑھی۔۱۹۷۲ دورہ حدیث شریف میں تیسری پو زیشن سے کا میا بی حاصل کی۔ادب سے دلچسپی شروع ہی سے تھی اس لئے ہمیشہ امتحان کے جوابات عربی میں لکھے، فراغت کے بعدایک سال تکمیل ادب میں رہ کر مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ سے خصوصی استفادہ کیا۔آپ کی تد ریسی زندگی کاآغاز ۱۹۷۳میں خادم الاسلام ہا پوڑ سے ہوا، چھ سال تک آپ اپنی علمی ضیا پا شیوں سے خادم الاسلام کی فضاء کو منور کر تے رہے،اس دوران آپ کی تدریسی صلاحیت، عمدہ استعداد اور تبحر علمی کے چرچے بہت دور تک ہو نے لگے تھے۔۱۹۷۹ میں مدرسہ جا مع الہدی مرادآباد کی خد مات کے لئے منتخب کئے گئے، یہاں ۳/ سال تک بحسن وخوبی تدریسی خد مات انجام دیں۔

اس کے بعدآپ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات کے لئے منتخب کر لئے گئے، دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ۱۹۸۲میں ہوا اس وقت سے آج ۳۹ سال تک دارالعلوم دیوبندکی خدمت کی۔ مولانا عبدالخالق سنبھلی ایک کامیاب مدرس، بہترین قلم کا ر ہو نے کے ساتھ بہت اچھے مقرر بھی تھے۔مرحوم کی تقریر یں صاف شستہ سلجھی ہو ئی اور مؤثر ہو تی تھیں متعدد مر تبہ آپ دارالعلوم دیوبند کے نا ظم امتحان رہے اور برسوں دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم بھی رہے۔آپ نے کئی مو ضوعات پر قلم اٹھا یا ہے، چنانچہ کئی عمدہ کتا بیں آپ کے رشحات قلم سے صادر ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں اور علمی حلقوں سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں،ان میں فتاوی عالمگیری جز ۵۱/ (کتاب الایمان)کا تر جمہ تحسین المبانی فی علم المعانی میں ضمیمہ کا اضافہ، عبد المجید عزیز الزندانی الیمنی کی کتاب‘التوحید کا تر جمہ جو تقریباً 500/صفحات پر مشتمل ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل رد مودودیت پر محاضرے جو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے شائع کئے گئے“۔ علم و عمل کا یہ حسین سنگم ۳۰ جولائی ۲۰۲۱ کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)

 دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم و مقبول استاذ مولانا عبدالخالق سنبھلیکے انتقال پرملال کی اطلاع جیسے ہی دیوبند پہنچی تو مدارس ومکاتب، علمی ودینی حلقوں کا ماحول سوگوار ہوگیا۔ دار العلوم دیوبند، دار العلوم وقف دیوبند، دارالعلوم زکریا دیوبند،دار العلوم فاروقیہ، جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی خانقاہ دیوبند، معہد انور، جامعہ قاسمیہ دار التعلیم والصنعہ دیوبند،مدنی دارالعلوم،دار العلوم اشرفیہ اور دیگر مدارس کے ذمہ داران واساتذہ مولانامرحوم کے آخری دیدار کے لئے ان کی رہائش گاہ دارالمدرسین پر پہنچ گئے ساتھ ہی فوری طور پر تعزیتی نشستوں کا انعقاد کرکے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔

دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی اور نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے مولانا عبدالخالق سنبھلی کے سانحہئ ارتحال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہمولانا عبدالخالق سنبھلیدارالعلوم دیوبند کے لئے نہایت مخلص تھے انہوں نے اپنی پوری عمردین کی خدمت میں وقف کردی تھی۔ ان کے انتقال سے ہم ایک مؤقرعالم سے محروم ہوگئے جس کا بدل بادی النظر میں دکھائی نہیں دیتا۔دارالعلوم وقف دیوبند کے نائب مہتمم مولانا ڈاکٹرشکیب قاسمی نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم علم و عمل کے پیکر تھے سادگی میں اپنی مثال آپ تھے ان کے یہاں بڑوں اور بچو والی کوئی بات نہیں تھی ہر کوئی بے تکلف ان سے مل سکتا تھا، مرحوم ایک مخلص اور وفا شعار شخص تھے،علمی و ادبی میدان کے بہترین شہسوار تھے،اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔دارالعلوم زکریا دیوبندکے مہتمم مولانا مفتی شریف خان قاسمی نے کہا کہ مولانا عبدالخالق سنبھلیکے انتقال کی خبرنے قلب وجاں کو جھنجھوڑ کررکھ دیاہے مختصرعلالت کے بعد مولاناکادارفانی سے رخصت ہوجاناملک وملت بالخصوص دارالعلوم دیوبند کے لئے عظیم خسارہ ہے خداوند قدوس مولانامرحوم کی مغفرت فرمائے اورملت کو اسکا نعم البدل عطافرمائے آمین۔

کل ہند رابطہ مساجد کے قومی جنرل سیکریٹری اور سہ ماہی رسالہ سرگزشت کے مدیر اعلی مولاناعبداللہ ابن قمر الحسینی نے شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم ہمیشہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے مولانا مرحوم نے اپنی پوری زندگی نورومعرفت کے چراغ خوب روشن کئے ان کا سانحہ امت مسلمہ کے لئے بڑا خسارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی کے مہتمم مولانا مزمل علی قاسمی نے مولاناعبدالخالق سنبھلی کی وفات پر صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے با کمال افراد کم ہی پیدا ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

مدرسہ اسلامیہ اصغریہ دیوبند کے مہتمم مولانا سید جمیل حسین،عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی،جامعہ طبیہ دیوبند کے سکیٹری ڈاکٹر انور سعید،معروف ادیب سید وجاہت شاہ اور مسلم فنڈ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے جو علمی خلا پیدا ہوا ہے اس کاپر ہونا ممکن نظر نہیں آتاہے۔ اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔دارالعلوم فاروقیہ کے مہتمم مولانا نور الہدی قاسمی بستوی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم غریبوں وضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔مرحوم کو دینی خدمت کا جذبہ ورثے میں ملا تھا۔اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔دارالعلوم دیوبند کے شعبہ دارالافتاء کے ناظم مولانا منیر الدین،مولوی سکندر خان،الحاج شاہ عالم قاسمی،نسیم انصاری ایڈوکیٹ اور مولانا عبدالحنان قاسمی نے کہا کہ وہ ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریق ہیں اللہ آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور بال بال ان کی مغفرت فرماکر جنت میں اعلی مقام عطافرمائے۔ جامعہ قاسمیہ دار التعلیم والصنعہ دیوبندکے مہتمم مولانامحمد ابراہیم قاسمی نے کہا کہ مولانا مرحوم کا اتنی عجلت میں جدا ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملنا کسی ایک طبقہ کا خسارہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ خسارہ ہے جس کا پر ہونا نہایت مشکل ہے تاہم خدا تعالی سے دعا ء ہے کہ ملت کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائے۔مولانا عبدالخالق سنبھلی کی نماز جنازہ احاطہ مولسری میں ادا کی گئی اور ہزاروں نم آنکھوں کے درمیان تدفین رات گیارہ بجے قاسمی قبرستان میں عمل میں آئی۔