پی ایف آئی کے خلاف کریک ڈاؤن: معیاری انٹلی جینس کا نمونہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 24-09-2022
پی ایف آئی کے خلاف کریک ڈاؤن: معیاری انٹلی جینس کا  نمونہ
پی ایف آئی کے خلاف کریک ڈاؤن: معیاری انٹلی جینس کا نمونہ

 

 

عاطر خان : نئی دہلی 

بڑا بھائی دیکھ رہا ہےاور وہ اب بھی ریاستی پولیس کی حیثیت سے نگرانی کررہا ہے۔ این آئی اے اور اے ڈی نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ اپنی تحقیقات مکمل کی۔ جو کہ حالیہ دنوں میں سب سے بڑی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔

یہ وہ پیغام ہے جو متعدد تفتیشی ایجنسیوں کی ڈرامائی کارروائیوں کے بعد واضح ہو گیا ہے۔ یہ آپریشن مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں بخوبی انجام دیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ اس پورے آپریشن کا نقشہ وزیر داخلہ کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھا ل نے بنایا تھا۔ اس کارروائی کو ایک ایسی کارروائی کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے جو ملٹی ایجنسی کوآرڈینیٹڈ ایکشن کی پیشہ ورانہ مہارت میں ایک معیار بن گیا ہے۔ کئی دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے کچھ انٹلی جینس افسران کا خیال ہے کہ یہ آپریشن بڑے پیمانے پر کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کے لیے نوجوان انٹلی جینس افسران کی تربیت کے لیے کیس اسٹڈی کا کام بھی کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس بیورو کی کارروائیوں میں ڈوبھال کا چار دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ متعدد ایجنسیوں کے لیے اس بڑے پیمانے پر کامیاب آپریشن کو انجام دینے میں اہم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوا، ملزمان پر قابو پانے کے لیے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔

جیسا کہ کہتے ہیں نوے فیصد منصوبہ بندی اور دس فیصد عملدرآمد۔ آپریشن کی حتمی کامیابی کا اندازہ اس کے نتائج سے لگایا جاتا ہے جس کا مکمل انحصار اس بات پر ہوگا کہ ایجنسیاں چھاپوں کے دوران اکٹھے کیے گئے شواہد کو کس طرح چھان پاتی ہیں۔ لیکن یہ واقعتاً ایک آپریشن تھا جس کا تعلق پوری احتیاط اور رازداری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ جس میں کسی چوک کی گنجائش نہیں تھی۔

آپریشن کی منصوبہ بندی اور نگرانی کے لیے نئی دہلی میں ایک خصوصی کنٹرول روم قائم کیا گیا تھا۔ آئی بی شروع سے ہی حرکت میں  تھا، ملک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس اکٹھی کرنے والی تنظیم  این آئی اے کے کام کے بارے میں اجیت  ڈوبھال کی ذہانت آپریشن کوکامیاب بنانے میں اہم تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ این ایس اے اور انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر اور متعلقہ ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام پلاننگ کے لیے کنٹرول روم میں اکثر آتے تھے۔ جبکہ آخری دن بھی موجود تھے۔کنٹرول روم چھاپوں کے بعد بھی پیشرفت کی نگرانی کر رہا ہے ۔اگر ضرورت پڑی تو ایجنسیوں کے اشارے پر مزید کارروائی کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی بی نے گراؤنڈ کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا- افسران مہینوں سے پی ایف آئی آپریٹیو کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہر شناخت شدہ  پی ایف آئی  آپریٹیو کے ہر اقدام کو اعلیٰ درستگی کے ساتھ نقشہ بنایا تھا۔ یہ کارروائیاں غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں بشمول آندھرا پردیش، تلنگانہ، بہار، کیرالہ اور راجستھان میں بھی کی گئیں۔

آپریشن کے دن بھی، خفیہ ایجنسی نے ریاستی پولیس، این آئی اے اور ای ڈی کو بڑی درستگی کے ساتھ اہداف کا پتہ لگانے میں مدد کی۔ یہ بہت اہم تھا کیونکہ مقامی آئی بی افسران نے مرکزی ایجنسیوں جیسے این آئی اے اور ای ڈی کے افسران کو صحیح اہداف تک پہنچنے میں مدد کی۔

آئی بی کی طرف سے مہینوں کی محنت کی وجہ سے این آئی اے، ای ڈی، اور کم از کم 15 ریاستی پولیس افسران نے تیزی کے ساتھ مشن کو انجام دیا۔ جس میں 1500 سے زیادہ افسران اور جوان کو شامل کیا گیا تھا۔ جمعرات کی صبح 15 ریاستوں میں 93 مقامات پر بیک وقت چھاپے مارے گئے تھ

پی ایف اے اور اس کی اتحادی تنظیموں کے رہنماؤں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے گئے جس کے نتیجے میں 106 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان میں پی ایف آئی کے شریک بانی پی کویا بھی شامل ہیں، جو کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے سابق رکن، پی ایف آئی کے چیئرمین او ایم اے بھی ہیں۔ سیلم اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے صدر ای ابوبکر، دیگر پی ایف آئی ممبران بھی شامل ہیں ۔

چھاپوں میں 106 گرفتاریاں ہوئی تھیں ۔ این آئی اے نے گزشتہ سال پانچ مقدمات میں ملوث 45 لوگوں کو گرفتار کیا -اس کے ساتھ  ایک حیدرآباد میں، تین دہلی میں اور ایک کوچی میں گرفتاری عمل میں آئیں،گرفتار شدگان اب  ای ڈی اور مقامی پولیس فورسز کی تحویل میں ہیں۔

این آئی اے کی طرف سے کی گئی 45 گرفتاریوں میں سے 19 ملزمین کیرالہ سے، 11 کو تمل ناڈو سے، سات کو کرناٹک سے، چار کو آندھرا پردیش سے، دو کو راجستھان سے اور ایک کو یوپی اور تلنگانہ سے گرفتار کیا گیا۔

این آئی اے 19 معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جن میں پی ایف آئی کے ممبران شامل ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس مخصوص ان پٹ تھے کہ پی ایف آئی کے لیڈر اور کیڈر داعش کی طرح دہشت گردی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی فنڈنگ، مسلح تربیت فراہم کرنے کے لیے تربیتی کیمپوں کے انعقاد اور لوگوں کو ممنوعہ تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے بنیاد پرست بنانے میں ملوث تھے۔

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پھلواری شریف کی تحقیقات سے ایجنسیوں کو دستاویزات کی شکل میں شواہد کا پتہ لگانے میں مدد ملی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کے کارندے مبینہ طور پر نوجوانوں کو پرتشدد کارروائیوں کے لیے اکسا رہے تھے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے دیگر شواہد بھی اکٹھے کیے گئے کہ یہ تنظیم بڑے پیمانے پر حکومت مخالف لوگوں کو متحرک کرنے میں ملوث تھی۔

یہ چھاپے تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، اتر پردیش، راجستھان، دہلی، آسام، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گوا، مغربی بنگال، بہار اور منی پور میں مارے گئے ۔ جن میں  "مجرمانہ ثبوت" بھی ملے ہیں۔ جن میں کچھ تیز دھار ہتھیار بھی شامل ہیں۔ اسلحہ اور دستاویزات قبضے میں لے لی گئیں۔ تاہم ابھی تک گرفتار افراد کے قبضے سے آتشیں اسلحہ برآمد ہونے کی کوئی اطلاع نہیں آئی ہے۔

ای ڈی نے کہا کہ ایجنسی پی ایف آئی کے ممبروں کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے اور تنظیم کو ملنے والے فنڈز کے ذرائع کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ چار افراد – شفیق رحیمہ، جن پر پی ایف آئی  کے لیے خلیجی ممالک سے فنڈز اکٹھا کرنے کا الزام ہے، پرویز احمد، پی ایف آئی کے دہلی صدر، الیاس احمد، دہلی میں تنظیم کے جنرل سکریٹری، اور دفتری سکریٹری عبدال مقیط ای ڈی کی حراست میں ہیں۔

پی ایف آئی نے کریک ڈاؤن کو "وچ ہنٹ" کے طور پر بیان کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیم لوگوں، خاص طور پر معصوم مسلمانوں کے ذہنوں کو مشتعل کرنے کی ایجنسی بن گئی تھی۔جو پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ یہ حکومت کے لیے ایک بڑی تشویش بن گئی تھی۔ اسی لیے اس کے کارندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی گئی۔

بہت کم سیاسی رہنما تنظیم کی حمایت میں آئے ہیں، لیکن بڑی حد تک تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومتی کارروائی کی مخالفت نہیں کی۔ یہاں تک کہ مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا، آل انڈیا تنظم علمائے اسلام، کل ہند مرکزی امام کونسل، اور آل انڈیا مسلم پسماندہ مسلم مہاج جیسی کچھ مسلم تنظیموں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر قانون کی پاسداری کے لیے کارروائی کی گئی ہے تو سب کو صبر کرنا چاہیے۔

مسلم کمیونٹی کے ایک بڑے حصے کا خیال ہے کہ پرتشدد کارروائیاں کسی کا مقصد پورا نہیں کر سکتیں اور اس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے اور ملک کی فضا خراب ہو سکتی ہے۔ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔