قطب مینار پر ملکیت کا نیا دعویٰ، کورٹ سے نوٹس جاری

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-06-2022
قطب مینار پر ملکیت کا دعویٰ، کورٹ سے نوٹس جاری
قطب مینار پر ملکیت کا دعویٰ، کورٹ سے نوٹس جاری

 

 

نئی دہلی: قطب مینار کیس میں نیا موڑ آیا ہے۔ مہندر دھوجا پرساد سنگھ نے عرضی دی ہے کہ وہ آگرہ صوبے کے حکمران تھے، ان کی حکومت جمنا سے گنگا تک تھی۔

انہوں نے قطب مینار سمیت جنوبی دہلی میں حکومت کی کیونکہ حکومت ہند اور ریاست آگرہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں تھا، اس لیے ان کے پاس اس زمین پر ملکیتی حقوق ہیں جس پر قطب مینار واقع ہے۔

اس درخواست پر تمام فریقوں سے جواب داخل کرنے کو کہا گیا ہے، اب اس درخواست پر سماعت 24 اگست کو ہوگی۔ ساتھ ہی آپ کو بتاتے چلیں کہ قطب مینار کیس کا فیصلہ آج نہیں آئے گا۔

یہ معلومات محکمہ آثار قدیمہ کے وکیل کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ عدالت میں نئی ​​درخواست دائر کر دی گئی ہے جس کی سماعت کے بعد فیصلہ متوقع ہے۔

قبل ازیں قطب مینار کیس میں ساکیت عدالت نے ہندو فریق کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ساکیت عدالت فیصلہ کرے گی کہ قطب مینار کمپلیکس کے اندر ہندو اور جین دیوتاؤں کی بحالی اور پوجا کا حق دیا جانا چاہیے یا نہیں۔

قبل ازیں سول جج نے درخواست خارج کر دی تھی جس کے فیصلے کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ تاریخی روایات کے مطابق مسجدقوت اسلام ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں خاندان غلامان کے دورکی ایک عظیم یادگارہے جس کا مئذنہ ’’قطب مینار‘‘ عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ قطب الدین ایبک کے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔

یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی عظیم مسجد تھی۔

مسجد قوت الاسلام کی تعمیر میں پرانی عمارتوں کا ملبہ استعمال کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔اس کی تعمیر کا مقصد صرف ایک مسجد کی تعمیر نہیں تھا بلکہ اس سرزمین پر اسلام کی شوکت کا اظہار بھی تھا۔

اسی لئے پرشکوہ مسجد کے ساتھ ساتھ اس کے مینار کو بلند اور شاندار بنایا گیا تھا۔ کہنے کو یہ اذان دینے کے لئے بنایا گیا تھا مگر یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ اذان کے لئے اس قدر بلند مینار بنانے کی ضرورت کیا تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مینار کا مقصد مئذنہ سے زیادہ شان وشوکت کا اظہار تھا۔ قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔مسجدقوت الاسلام اور قطب مینار پر خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں جن کی کاریگری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی طرز تعمیر کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ جس وقت اس عمارت کی تعمیر ہوئی یہاں وسط ایشیا اور ایران کے کاریگروں کی کمی تھی اور ایسے افراد بھی موجود نہیں تھے جو اس طرز تعمیر سے آگاہ ہوں۔

ایسے میں کچھ ایرانی اور کچھ ہندوستانی کاریگروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ۔مسجد کی مغربی جانب سلطان شمس الدین التتمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔

سلطان کی قبر پر بھی قرآنی آیات تحریر ہیں۔اسے بادشاہ نے جیتے جی بنوایا تھا۔مسجد کی موجودہ صورتحال کھنڈرات جیسی ہی ہے اور دھیرے دھیرے دیواریں منہدم ہوتی جارہی ہے۔مسجد کی حرمت بھی باقی نہیں رہی۔