سول انجینئراصغرعلی،نوکری چھوڑ کیوں بنارہے راون کے پتلے؟

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 14-10-2021
سول انجینئراصغرعلی،نوکری چھوڑ کیوں بنارہے راون کے پتلے؟
سول انجینئراصغرعلی،نوکری چھوڑ کیوں بنارہے راون کے پتلے؟

 

 

پانی پت: ہریانہ کے پانی پت میں آگرہ کا مسلم خاندان کئی نسلوں سے راون ، میگ ناتھ اور کمبھ کرن کے پتلے بناتا ہے جنھیں دسہرہ کے موقع پر جلایا جاتا ہے۔ مجسمے بنانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے والد یہاں آتے تھے اور مجسمے بناتے تھے۔

اب 30 سالوں سے وہ یہاں آ کر مجسمے بنا ر ہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اب اس مسلمان خاندان کا سافٹ وئیر انجینئر بیٹا بھی آ رہا ہے اور ان کے ساتھ مجسمے بنا رہا ہے۔ مجسمہ بنانے والے اصغر علی نے بتایا کہ وہ پہلے پی ڈبلیو ڈی میں سول انجینئر کے طور پر کام کرتے تھے ، لیکن کافی عرصہ قبل ملازمت چھوڑ دی۔

اب راون کمبھ کرن اور میگ ناتھ کے پتلے بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام ان کے آباو اجدادکیا کرتے تھے ، اس لیے انہیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ماہ پہلے پانی پت آجاتے ہیں اور مجسمے بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پانی پت کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب اور چندی گڑھ بھی جا کر مجسمے بناتے ہیں۔

لوگوں کا مطالبہ ہوتاہے کہ ان کے لیے مختلف قسم کے مجسمے بنائے جائیں،وہ اس مطالبے کو پورا کرتے ہیں۔ اصغر علی نے بتایا کہ ان کا پورا خاندان ، مجسمے بنانے میں ان کا ساتھ دیتا ہے اور ان کے بیٹے بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔

اصغر علی اپنے بیٹے کے ساتھ ہر سال پانی پت اور چندی گڑھ میں راون کے مجسمے بنانے آتے ہیں۔ اصغر علی نے بتایا کہ ابتدا میں ان کے اپنے سماج کے لوگوں نے ہندو مذہب کے لیے کام کرنے سے منع کیا لیکن انھوں نے اپنے آبائی کام کو نہیں چھوڑا۔

انھوں نے بتایا کہ ایک بار وہ پانی پت سے مجسمے بنانے کا کام ختم کرنے کے بعد آگرہ میں اپنے گھر گئے۔ وہاں ایک مسجد میں گئے۔

جب انہوں نے وہاں چندہ دینا شروع کیا تو ایک مولوی نے ان سے چندہ لینے سے بھی انکار کر دیا اور کہا کہ آپ ہندوؤں کے تہوار کے لیے مجسمے بنا کر آئے ہیں۔ اسی لیے ہم آپ کا چندہ نہیں لیں گے۔ جس کے بعد انھوں نے مولوی کی سرزنش بھی کی۔

اصغر علی نے بتایا کہ ان کے مذہب کے لوگ انھیں مجسمے بنانے سے روک رہے تھے ، لیکن انھوں نے کسی کی نہیں سنی اور اپنا کام کرتے رہے۔ اصغر علی نے کہا کہ وہ مجسمے بنا کر معاشرے میں بھائی چارے کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندو اور مسلمان سب ایک ہیں۔ کسی کو ایک دوسرے سے نفرت نہیں ہونی چاہیے اور سب کو بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اصغر علی کا کہنا تھا کہ مجسمے بنانے کے لئے وہ کپڑا اور کاغذ استعمال کرتے ہیں اور بعد میں اس پر پینٹ استعمال کرتے ہیں۔

اصغر علی نے بتایا کہ جب مجسمے بنانے کا کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ آگرہ میں اپنے گھر لوٹتے ہیں اور وہاں وہ شادیوں میں آتش بازی بھی کرتے ہیں۔

اصغر علی نے بتایا کہ ان کے تمام بچے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا سافٹ وئیر انجینئر ہے اور چھوٹا بیٹا بی ٹیک پڑھ رہا ہے۔ اس کی ایک لڑکی سرکاری ٹیچر ہے اور دوسری لڑکی ایم بی بی ایس پڑھ رہی ہے۔