گیان واپی پر بھاگوت کا بیان : کیا کہہ رہے ہیں مسلم دانشوراورعلماء

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-06-2022
گیان واپی تنازعہ پر بھاگوت کا بیان : کیا کہہ رہے ہیں مسلم دانشوراورعلماء
گیان واپی تنازعہ پر بھاگوت کا بیان : کیا کہہ رہے ہیں مسلم دانشوراورعلماء

 

 

 آواز دی وائس : منصور الدین فریدی 

گیان واپی مسجد کے تنازعہ کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا جمعرات کی شب ایک بڑے بیان نے ہر کسی کو چونکا دیا ۔بیان میں موہن بھاگوت نے بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہر دن کسی مسجد میں شیو لنگ تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار نہ اس نسل کے ہندو ہیں اور نہ مسلمان۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ بابری مسجد تنازعہ کے بعد کسی اور  مسجد کے خلاف کسی تحریک میں شامل نہ ہونے کے عہد پر تنظیم اب بھی قائم ہے۔ 

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے گیان واپی مسجد کے تعلق سے جو بیان دیا ہے اس کو مسلم دانشوروں اور علما نے مثبت تومانا ہے۔ اس صاف گوئی کا خیرمقدم کیا ہے۔ان کے نظریئے کو دوستانہ مانا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے موہن بھاگوت ایسے ماحول اور واقعات کی روک تھام کے لیے عملی طور پر حرکت میں آئیں کیونکہ وہ ایک ایسی ہستی ہیں جنہیں کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ساتھ ہی دانشوروں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اب جبکہ موہن بھاگوت نے اپنا موقف واضح کردیا ہے حکومت کو بھی اس پر اپنی رائے واضح کرنا چاہیے ۔

موہن بھاگوت کے اس بیان پر ممتاز اسلامی اسکالر اور خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹرپروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ایک مثبت بیان ہے ،جس میں انہوں نے بڑی بے باکی اور وضاحت کے ساتھ موجودہ حالات اور ان کا حل بیان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کو ہمیں شمجھنا چاہیے کہ بادشاہوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،بادشاہوں نے اقتدار کے لیے بہت سے فیصلے کیے تھے جن سے رعایا یا عوام کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ہندوستان کے لیے سب سے اہم اتحاد ہے کیونکہ اگر ملک کو وشو گرو بننا ہے  تو اس کی پہلی اور سب سے اہم بنیاد ملک کا اتحاد ہوگا۔

پروفیسر اختر الواسع نے امید ظاہر کی ہے کہ اب جبکہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے گیان واپی معاملہ پر اپنے موقف کا اعلان کردیا ہے۔ اب حکومت بھی اس پراپنی چپی توڑے گی،وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ  بھی اس پر اپنی رائے رکھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک کی خوبصورتی یہی فرقہ وارانہ اتحاد ہے۔ یہی ترقی کی کنجی ہے۔ جبکہ موہن بھاگوت نے اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہوا اس کا تعلق حال سے نہیں ۔ یہی سب سے اہم اور بڑا پیغام ہے۔

 سکریٹری  شعبہ اسلامی  سوسائٹی ، جماعت اسلامی ہند  اور ممتاز دانشورڈاکٹر رضی الاسلام  ندوی  نے اس معاملہ میں کہا کہ بظاہر تو بیان بہت اچھا ہے اس کا استقبال کرنا چاہیے  لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی امید کرنا چاہیے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں ویسا ہی ہو۔اگر ان کے بیان کے باوجود  اس قسم کا ماحول بن رہا ہے اور لوگ ایسی حرکتیں کررہے ہیں تو افسوسناک ہے۔

 ڈاکٹر رضی الاسلام ند وی نے کہا کہ ضروری ہے کہ موہن بھاگوت  ایسے لوگوں  کو ڈانٹ لگائیں جو ان کی بات نہیں مان رہے ہیں ۔ایک جانب وہ کہہ چکے ہیں کہ بابری مسجد کے بعد کسی مسجد پر کوئی دعوی نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس لیے عملی طور کچھ کر دکھانے کا وقت ااؑیا ہے۔ بہر حال اگر کوئی ایک اچھی بات کہہ رہا ہے تو اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور ممتاز دانشورقاسم  رسول الیاس نے کہا کہ آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت  صاحب کے بیان کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ زمین پر اس کا اثر نہیں۔ وہ ماضی میں بھی ان کے بیانات کو بہت مثبت مانا گیا لیکن اس کا عملی طور پر کوئی اثر نظر نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بابری مسجد کے بعد کسی اور مسجد پر دعوی نہ کرنے کہ وعدے پر اٹل ہیں لیکن دوسری جانب وہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت جو فیصلہ کرے اس کو تسلیم کیا جائے۔ یعنی کہ وہ گیان واپی مسجد کیس کو جائز ٹھہرا رہے ہیں ۔ کل یہی متھرا میں نہیں ہوگا اس کی ضمانت کون دے گا۔

 انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اور ہندو کا ڈی این اے ایک ہی ہے لیکن جب ملک کی سڑکوں پر مسلمان نشانہ بنتے ہیں تو اس وقت وہ کیوں نہیں بولتے۔ ابھی اگر کوئی شیولنگ  تلاش کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کون ہیں ۔

ممتاز صوفی لیڈر اور انٹر نیشنل صوفی کارواں  کے سربراہمفتی  منظور ضیائی نے کہا کہ یہ ان لوگوں کے منھ پر طمانچہ ہے جو ہندو توا کے نام پر گیان واپی مسجد کو تنازعہ بنا رہے ہیں ۔موہن بھاگوت کے اس بیان سے انہیں سبق لینا چاہیے۔یہ تنازعہ صرف ملک کا ماحول نہیں بلکہ نام بھی خراب کردے گا۔جو بین الاقوامی رسوائی کا سامان بن جائے گا۔ملک کی اقلیتوں کے تعلق سے دنیا کو غلط پیغام جائے گا۔

مفتی ضیائی نے مزید کہا کہ موہن بھاگوت کے بیان کی حمایت کرنی چاہیے جنہوں نے اس  ماحول کی تائید نہیں کی بلکہ جو لوگ اس میں ملوث ہیں انہیں یہ پیغام دیا کہ جو ہونا تھا اب ہوچکا ہے۔بابری مسجد ۔رام جنم بھومی تنازعہ کے بعد آر ایس ایس کسی بھی ایسی تحریک میں شامل نہیں ہوگی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہتر ہوگا کہ موہن بھاگوت صاحب اس تنازعہ کو ہوا دینے والوں کی مدمت کریں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی بات کہہ دیں تو زمینی طور پر اس کا بہت اثر پڑے گا ۔

 دہلی کی فتح پوری مسجد کے شاہی امام  اور ممتاز دانشور ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت کے اس بیان کو مثبت قرار دیا مگر ساتھ ہی کہا کہ انہیں اس معاملہ میں عملی طور پر متحرک ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو لگام لگانا چاہیے جو ملک کا ماحول خراب کررہے ہیں۔ورنہ ماضی میں بھی ان کے متعدد بیانات آئے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔

مفتی مکرم نے کہا کہ اگر وہ امن شانتی کی بات کرتے ہیں اور اتحاد و میل ملاپ کی امید ظاہر کرتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں ۔ ضروری ہے کہ ملک امن و شانتی کا وشو گرو بنے ۔ابھی تو اس کے بر عکس ہورہا ہے۔ زمینی حقائق کچھ اور ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ موہن بھاگوت ایک بڑی شخصیت ہیں ،ہماری اپیل ہے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس کو عملی طور پر لاگو کرائیں ۔کیونکہ وہی ایک ایسی ہستی ہیں جن کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ناگپور یونیورسٹی  کے سابق وائس چانسلر اور ممتاز دانشور ڈاکٹر ایس این پٹھان نے کہا ہے کہ ہر کسی کو موہن بھاگوت کے بیان کا خیر مقدم کرنا چاہیے  کیونکہ انہوں نے انتہائی صاف دلی کے ساتھ اپنی بات رکھی ہے۔انہوں کٹر ہندو توا کی مذمت کی ہے جس سے مسلمانوں کو بھی سبق لینا چاہیے اور مذہبی کٹر پسندی سے دور رہنا چاہیے ۔بھاگوت نے واضح کیا ہے کہ وہ ایسی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے ۔جبکہ اگر کوئی تنازعہ ہے تو اس کو آپس میں حل کیا جائے  یا پھر عدالت کے فیصلے کو قبول کیا جائے ۔ 

 ڈاکٹر پٹھان نے کہاکہ  مسلم  لیڈران کو بھی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بات سلجھنے کے بجائے الجھ جاتی ہے۔یہی نہیں غیر طاقتیں اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں ۔اس ملک کی روایت رہی ہے کہ ہندو ۔ مسلم مل جل کر رہے ہیں اور یہی روایت قائم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت نے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ جس کے بعد آر ایس ایس کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔