ترتوک یوم آزادی: وزیر اعظم مودی سے بلتستانیوں کا مطالبہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 3 Years ago
میجر رینچن  ترتوک گاؤں میں  مقامی افراد سے محو گفتگو
میجر رینچن ترتوک گاؤں میں مقامی افراد سے محو گفتگو

 

 

آشا کھوسہ/ نئی دہلی

کارگل کے دریائے شیوک کی وادی میں بسے اور لائن آف کنٹرول سے متصل ترتوک میں پر رہنے والے لوگوں نے نریندر مودی حکومت سے کچھ توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں- یہ لوگ حکومت کو حالیہ دور کی ایک اہم تاریخ کی یاد دلارہے ہیں جسے بظاہر ہندوستانی قوم فراموش کر چکی ہے۔

یہ 13 اور 14 دسمبر 1971 کی درمیانی شب کا واقعہ ہے جب چار دن تک جاری رہنے والے ایک آپریشن میں ہندوستانی فوج نے پاکستانی فوج کو شکست دی- فتح کے بعد فوج نے نوبرا کے گاؤں ترتوک میں قدم رکھا ۔ یہ علاقہ مقبوضہ کشمیر کا ایک حصہ تھا جس پر ہندوستانی فوج نے اس کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر قبضہ کیا تھا ۔ اس سے قبل یہ چھ دیہات پاکستان کے شمالی علاقہ جات جو اب گلگت بلتستان کے نام سے الگ صوبہ ہے، کا حصہ تھے اور تاریخی اور ثقافتی طور پر بلتی بولنے والے لوگوں کی نسبت سے بلتستان کہلاتے تھے۔

چودہ دسمبر کی صبح ، جب ہندوستانی فوج کے لداخ اسکاؤٹس کے میجر رینچن ترتوک گاؤں میں ان مقامی افراد کے گروہوں کے قریب پہنچے جو اپنے گھروں میں چھپے ہوئے تھے جب دیر رات دونوں اطراف کی فوجوں کے درمیان لڑائی جاری تھی۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ ظرفی سے انتقامی کارروائیوں کے خوف کو معدوم کر دیا ۔ ان کی یقین دہانی پر کہ ہر فرد کو اپنا سمجھا جائے گا ، قریبی نالہ میں چھپی ہوئی خواتین اور بچے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

میجر رنچن کی 14 دسمبر کی صبح لداخی لوگوں سے ہونے والی خوشگوار گفتگو کی یاد بہت سے دیہاتیوں کے ذہنوں میں ابھی بھی تازہ ہے ، جو اس وقت یا تو چھوٹے بچے تھے یا اپنے بزرگوں سے اس کے بارے میں سنا تھا۔ انہوں نے خالص لداخی زبان میں کہا کہ ہندوستانی فوج ہر لحاظ سے آپ کی مدد کرے گی۔ اپنی خواتین اور بچوں کو واپس لائیں۔ وہ ہماری ماؤں بہنوں جیسی ہیں۔ میں ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں گا ، اگر کسی کی طرف سے کوئی بد سلوکی ہوتی ہے تو میں اس شخص کے خلاف تادیبی کارروائی کروں گا۔

اس کے بعد فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے اگلے دو دن کے دوران دوسرے دیہاتوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا کیونکہ پاکستانی فوج کے جوانوں نے اپنی پوسٹیں چھوڑ دی تھیں جس نے ہندوستانی فوج کے علاقے پر قبضہ کو یقینی بنا دیا۔ یہ چھ دیہات چولنکھا ، تورتوک یو ، ترتک فارول ، ٹیاکشی گروڈ اور تیاکشی پینتھنگ ، تھنگ میں آج تقریبا 6000 افراد آباد ہیں۔

شیریں فاطمہ بلتی ، ایک نوجوان گلوکارہ جن کے گانوں نے بلتستان میں لائن آف کنٹرول کے اس پار بھی دھوم مچا دی تھی ، علاقے کی مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں۔

اس پس منظر میں وزیر اعظم کے نام ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں 16 دسمبر کو ترتوک لبریشن ڈے کے طور پر منانے کی گزارش کی گئی ہے ۔ خط پر ٹیکشی پاچاٹھن کے نمبردار (محصولاتی عہدیدار) حاجی عبد القادر ، ٹاکشی گروڈ کے نمبردار اور ایک مقامی سماجی کارکن غلام حسینی کے دستخط تھے ۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ دن اتنا ہی اہم ہے جتنا وجے دیواس اور دیگر تقریبات۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس جنگ میں اپنی جانیں قربان کرنے والے فوجیوں کی یاد میں 16 دسمبر کوترتوک یوم آزادی کے طور پر منایا جانا چاہئے۔ تاہم اسی دن ایک انسانی المیہ نے بھی جنم لیا کیونکہ ان دیہاتوں میں بہت سے کنبے تقسیم ہوگئے ۔ تینوں رہنماؤں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسا طریقہ کار تیار کرنے کے لئے پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر کام کرے جس کے تحت منقسم کنبے کے افراد شیوک ندی کے کنارے ایک متعین جگہ پر مل سکیں۔

فی الحال ، مقامی لوگوں کو دوسری طرف اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے دہلی یا امرتسر کا سارا راستہ طے کرنا پڑتا ہے اور ہوائی جہاز یا ٹرین کے ذریعہ پاکستان جانا ہوتا ہے۔ انہوں نے ملاقات کا مقام تیاکشی تھانگ گاؤں اور سیان فارنی (مقبوضہ کشمیر ) کے درمیان والے علاقے میں تجویز کیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ منقسم خاندانوں کی ملاقاتیں آرمی یا سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میں بھی ہوسکتی ہیں۔