کابل ۔ نئی دہلی
جنگ اور خانہ جنگی کے بدترین دور سے گزرنے کے بعد اب ایک بار پھر افغانستان میں امن کی واپسی ہورہی ہے۔ تباہی کے نشانات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس سرزمین نے بڑی خوفناک جنگوں کی بھاری قیمت چکائی ہے۔افغانستان کی تعمیر نو کا مشن اب عروج پر ہے۔ بین الاقوامی برادری اپنے اپنے سطح پراس میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کررہی ہے۔مگر افغانستان میں ہندوستان کا ’بڑے بھائی‘ کا کردار کچھ خاص ہے۔جسے دنیا میں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔کابل میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت ہو یا پھر لائبریری،ہر بڑے تعمیری پروجیکٹ پر ہندوستانی مہر نظر آسکتی ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو سے سماجی اور ثقافتی نشانیوں کو تحفظ دینے تک ہندوستان ایک اہم کردارادا کررہا ہے۔اسی سلسلے کی نئی کڑی سامنے آئی ہے۔ہندوستان نے اب تاریخی بالا حصار قلعہ کے کھنڈرات کو نئی شکل دے کرآثار قدیمہ پارک میں تبدیل کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔
اس مشن کوحکومت ہند اورآغاخان ٹرسٹ نے سنبھالا ہے جس کیلئے افغانستان کی وزارت اطلاعات وثقافت کے ساتھ ایک معاہدے پردستخط بھی ہوئے تھے۔ جس کے بعد 1500 سال پرانے حصارقلعے کی تعمیرنوکاکا م حال ہی میں شروع ہوا۔افغانستان کی وزارت اطلاعات و ثقافت نے آغا خان فاؤنڈیشن کے ساتھ کابل میں مفاہمت کی ایک نئی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔ افغانستان کے صدارتی محل نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ جس کے تحت حکومت ہند اس کے اخراجا ت کو برداشت کرے گی اور مرمت کا کام آغا خان فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہوگا۔ایک خستہ حال اور کھنڈر نما قلعہ کو نئی شکل دی جارہی ہے۔ یہ قلعہ آثار قدیمہ کا گواہ بنے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب دنیا ہندوستان کے کردار کو سراہا رہی ہے تو کابل میں اس تعمیری مشن سے پاکستان کو بہت تکلیف ہورہی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس کو ہندوستا نی سازش قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ اس بات کو بھلا یا جارہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردی کا سب سے بڑا اکسپورٹر پاکستان ہی ہے۔
تاریخی قلعہ کی مرمت کا کام شروع ہوچکا ہے
جہاں تک اس قلعہ کا تعلق ہے تو کچھ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ قبل از اسلام بدھ مت کے پیروکار اس مقام پر رہتے تھے لیکن افغانستان کے تاریخی ذرائع کے مطابق بالا حصار کے اہم قلعے میں بعد میں خونی جھڑپیں دیکھنے میں آئیں اور یہ ایک اہم فوجی اڈے کے طور پر استعمال ہوا۔
یاد رہے کہ علاقہ کئی سال سے ایک فوجی اڈہ ہے اور خانہ جنگی میں اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ 2014 تک یہ قلعہ افغان وزارت دفاع کے پاس تھا اور ایک فوجی یونٹ یہاں مقیم تھا۔اگر بات اس کی تاریخ کی کریں تو قلعہ پہلی افغان - برطانوی جنگ (1839-1842) اور دوسری اینگلو-افغان جنگ (1879-1880) کے دوران بھی ایک کمانڈ پوسٹ تھا۔ بعد میں یہ سوویت دور میں آرمی ہیڈ کوارٹرز بن گیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت آغا خان فاؤنڈیشن کا ثقافتی خدمات کا محکمہ قلعے کی فصیل اور عمارتوں کی مرمت اور مضبوطی کے ساتھ ساتھ یہاں ایک آثار قدیمہ اور تفریحی پارک تعمیر کرے گا۔
قلعہ زیادہ تر بادشاہوں کے اقتدار کا مرکز تھا اور اس کی تاریخی اہمیت تھی۔ 20 سال تک یہ قلعہ ظہیرالدین محمد بابر کے اقتدار کا مرکز رہا۔آغا خان فاؤنڈیشن کئی برسوں سے افغانستان میں تاریخی عمارتوں کی تزئین و آرائش کر رہی ہے۔ دیگر منصوبوں میں چیلسٹن گارڈن، عالم گنج گارڈن، ہرات کا پانچواں مینار، کابل کا پرانا شہر، بلخ کی نو گون آباد مسجد، ہرات کا قلعہ اور دیگر کئی منصوبے شامل ہیں۔ بالا حصار کے علاوہ افغانستان میں 1200 دیگر تاریخی مقامات کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ایسی عمارتوں کے تحفظ کے لئے حکومت کے پاس فنڈز اور سہولیات کی کمی ہے۔