ایک بزرگ کی مثالی قربانی :نوجوان مریض کےلئے اسپتال کا بیڈ چھوڑا اور پھر چل بسے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 28-04-2021
مثال قائم کرگئے
مثال قائم کرگئے

 

 

منصور الدین فریدی۔ نئی دہلی، ناگپور

جس وقت کورونا کی لہر میں ہر کوئی اسپتال میں ایک بیڈ حاصل کرنے کےلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ایسے وقت میں ایک بزرگ نے یہ کہہ کر اپنا بیٹ ایک نوجوان کو دیدیا کہ میں اپنی زندگی جی چکا ہوں ۔ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باجود اس شخص نے اسپتال کو الوداع کہہ دیا بلکہ تین دن بعد اس دنیا سے بھی رخصت ہوگئے۔ 

یہ واقعہ ہے ناگپور کا۔جس نے ایک سنگین انسانی بحران میں انسانیت کے اس جذبہ کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ دنیا مفاد پرستوں سے بھری پڑی ہے لیکن آج بھی ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنا حق کسی اور کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور اس دنیا سے جاتے جاتے دوسروں کے لیے مثال قائم کر جاتے ہیں۔مگر اس معاملہ میں مہاشتڑا کے ضلع ناگپور سے تعلق رکھنے والے 85 سالہ نرائن دھبادکر کی ہے جنھوں نے اپنی زندگی دوسروں کے لئے نچھاور کر دی۔یہ واقعہ 22 اپریل کا ہے ۔

کچھ روز قبل کورونا مثبت کا تجربہ کرنے والے نرائن دھبادکر کی صاحبزادی والد میں آکسیجن کی سطح کم ہونے پر ان کے اسپتال میں داخلے کے لئے پریشان تھی تاہم ایک روز نرائن کی صاحبزادی کو اندرا گاندھی اسپتال میں بیڈ مل گیا۔ لیکن جب نرائن اپنے پوتے کے ہمراہ اسپتال پہنچے اور داخلے کے اندراج کے لئے کوائف مکمل کروا رہے تھے تو عین اسی وقت نرائن نے ایک عورت کے رونے کی آواز سنی، خاتون اپنے 40 سالہ شوہر کے اسپتال میں داخلے کے لئے بیڈ کی بھیک مانگ رہی تھی لیکن کورونا کیسز میں اضافے کے سبب یہ ناممکن تھا، خاتون کے بچے بھی رو رہے تھے۔

دھبادکر نے عورت کی پریشانی سمجھتے ہوئے میڈیکل ٹیم کو اپنا بیڈ اس عورت کے شوہر کو دینے کی پیشکش کر دی، دھبادکر نے اسپتال انتظامیہ سے کہا میری عمر 85 سال ہے، میں اپنی زندگی گزار چکا ہوں لہٰذا یہ بیڈ اس عورت کے شوہر کو دے دیا جائے۔

 اسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ بزرگ نے کہا تھا کہ ’’۔ میں 85 سال کا ہوں ،اپنی زندگی جی چکا ہوں۔اس نوجوان کی زندگی بچائیں۔اس کے بچے بھی چھوٹے چھوٹے ہیں۔۔برائے مہربانی میرا بیڈ اس کو دیدیں۔‘‘ ۔

 اس وقت بھی ڈاکٹروں نے انہیں بتایا تھا کہ ان کا اسپتال میں زیر علاج ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن انہوں نے نہیں سنا اور اپنا بیڈ نوجوانو کو دیدیا۔بعد ازاں نرائن نے اپنے پوتےکو کہا کہ بیٹی کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کیا جائے جس کے بعد نرائن گھر لوٹ آئے اور 3 دن بعد انتقال کرگئے۔

بزرگ کی بیٹی نے کہا کہ میرے والد نے اپنا آخری وقت ہم لوگ کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے ،انہوں نے کہا کہ وہ جوان مریض ہے اس کا بچنا زیادہ ضروری ہے۔۔وہ آر ایس ایس کے سرگرم رکن بھی تھے۔

یہ ایسے وقت ہوا ہے جب ملک بھر میں آکسیجن کے بحران کے سبب اسپتالوں میں بیڈ کی ہا ہا کار ہو رہی ہے جبکہ مریض اسپتالوں کے باہر پڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ایسی قربانی دنیا بھلا نہیں پائے گی۔