اگنی پتھ: صنعتکاروں کی حمایت، افرادی قوت دستیاب ہوگی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-06-2022
اگنی پتھ: صنعتکاروں کی   حمایت، افرادی قوت دستیاب ہوگی
اگنی پتھ: صنعتکاروں کی حمایت، افرادی قوت دستیاب ہوگی

 

 

نیو دہلی : ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندر سیکرن نے حکومت کی اگنی پتھ سکیم کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مختلف شعبوں کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت دستیاب ہوگی۔  اتوار کو ٹاٹا سنز کے چیئرمین این چندر سیکرن نے کہا ہے کہ اگنی پتھ کی سکیم سے نہ صرف نوجوانوں کو فوج میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملے گا بلکہ ایک تربیت یافتہ افرادی قوت بھی انڈسٹری کے لیے موجود ہوگی۔ دیگر صنعتکاروں مہندر گروپ کے چیئرمین آنند مہندر۔ آر پی جی انٹرپرائزر کے چیئرمین ہرش گوئنک، بائیوکان لمیٹڈ کی چیئرپرسن کرن موزمدار شاہ اور اپولو ہوسپٹلز گروپ کے جوائنٹ مینجنگ ڈائریکٹر سنگیتا ریڈی نے بھی سکیم کی حمایت کی ہے۔

اتوار کو اگنی پتھ سکیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کے باعث 500 سے زیادہ ٹرینوں کی آمدورفت معطل رہیں۔ تقریباً 14 لاکھ اہلکاروں کے ساتھ انڈیا کی فوج دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ہے۔ بری، بحری اور فضائیہ الگ الگ سپاہیوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ انڈین فوجیوں کی مدت ملازمت تقریباً 20 سال تک ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو پیشن دی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے مختصر مدت کے لیے فوجیوں کو بھرتی کرنے کے لیے ’اگنی پتھ‘ کی پالیسی متعارف کرائی تھی۔

اس نئی پالیسی کے تحت رواں برس کل 46 ہزار فوجی چار سالہ کانٹریکٹ پر بھرتی کیے جائیں گے اور صرف 25 فیصد افراد کو ملازمت پر رکھنے کا امکان ہے۔ اس پالیسی کے اعلان کے بعد ملک گیر احتجاج مظاہروں کا آغاز ہوا۔

ان احتجاجی مظاہروں میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ ریاست بہار سے 19 برس کی رادھا کرشن کا کہنا ہے کہ ’وہ گزشتہ ڈیڑھ برس سے فضائیہ میں شامل ہونے کی تیاری کر رہی تھیں لیکن نئی سکیم سے ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔‘

حکومت نے مظاہرین کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ان کو وفاقی اور سرکاری اداروں میں تعینات کیا جائے گا۔ متعدد اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی مظاہروں کی حمایت کی ہے۔

سیاسی جماعت کانگریس کے ترجمان اجے میکن نے مطالبہ کیا ہے کہ ’یہ پالیسی واپس لی جائے اور اس پر پارلیمان میں بحث کی جائے۔‘ حکومت نے کہا ہے کہ نئی پالیسی کی تحت بھرتیاں جولائی میں شروع ہوں گی۔ انڈیا اپنے 76 بلین ڈالرز کے فوجی اخراجات میں کمی کا خواہاں ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار سدھیندر کلکرنی کا کہنا ہے کہ حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ اس میں مسلح افواج کی پنشن کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں۔