حجاب کے بعد، کرناٹک میں حلال گوشت کا تنازعہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 31-03-2022
حجاب کے بعد، کرناٹک میں حلال گوشت کا تنازعہ
حجاب کے بعد، کرناٹک میں حلال گوشت کا تنازعہ

 

 

پرتیبھا رمن/بنگلور

ریاست کرناٹک میں یوگادی کو منانے کی تیاریاں جاری ہیں، یہ دراصل ریاست سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کے لیے نئے سال کے آغاز کی مانند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کو دھیان میں رکھتےہوئےایک نیا تنازعہ شروع کر دیا گیا ہے۔

رواں برس آئندہ 2 اپریل 2022 کو یوگادی کا تہوار منایا جا رہا ہے۔ اس تہوار کے اگلے دن ہندو 'ہوساتھوڈاکو'  کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن وہ اپنے نئے سال کی شروعات گوشت پکانے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ریاست کے مختلف حصوں میں حجاب تنازعہ پھیلنے کے بعد ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ترجمان موہن گوڈا نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوگاڈی کے دوسرے دن بہت سے ہندو ہوساتھوڈاکو مناتے ہیں۔ اس کی شروعات اپنے اپنے گھروں میں وہ روایتی طرز پر گوشت پکانے کے ساتھ کرتےہیں۔ آئیےہم سب اس بات کو یقینی بنائیں کہ  حلال گوشت نہ خریدیں۔ ہمیں اس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ مسلمان تاجراسلام کی کوئی دعا کرتے ہوئے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔

اس طرح گویا مسلمان اللہ کے سامنے نذرانہ پیش کرتےہیں۔ ہم اسے اپنی ہندو روایت میں کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ یہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حلال گوشت کی فروخت کے ذریعے اس ملک کو اسلامی بنانے کے لیے بہت سی رقم لگائی جا رہی ہے۔اس لیے ہم تمام ہندوؤں کو حلال گوشت کا بائیکاٹ کرنے کے لیے اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ ہندو جن جاگرن سمیتی کےترجمان موہن گوڈا کی جانب سے دیا گیا بیان جلد ہی دارالحکومت بنگلورو اور ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گیا ہے۔

بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ارکان نے نیلامنگلا میں پوسٹر لگائے ہیں جس میں حلال گوشت پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں ہندو گوشت کی الگ دکانیں بھی لگائی ہیں۔ ذرائع کا کہناہےکہ یہ تنازعہ دراصل حجاب فیصلے کے بعد ہڑتال کرنے والے مسلم تاجروں سے بدلہ لینے کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔ بی جے پی کے ایک قریبی ذرائع نے کہا آئندہ سال 2023 میں جب اسمبلی انتخابات ہوں گےتویہ مسئلہ ہمارے حق میں مفید ثابت ہوگا۔ پولرائزیشن کرنے والا کا شکریہ جس کی بدولت ہمیں اتنا سنہرا موقع ملا ہے۔

وہیں بی جے پی لیڈر سی ٹی روی نے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی کال کی توثیق کی اور اسے'اقتصادی جہاد' قرار دیا ہے۔ حلال گوشت پر بازاروں میں مسلمانوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ انہوں نے سوال کیا اگر ہندو وں کی جانب سے حلال گوشت کا بائیکاٹ کیاجارہاہےتوکیاغلط ہے۔ وہیں ریاست کی برسراقتدارجماعت اس مہم کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر وزیر داخلہ اراگا جانیندرا نے کہا کہ یہ تمام ردعمل حجاب کے معاملے میں ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریاست میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا تب وزارت داخلہ کی جانب سے اس پر توجہ دی جائے گی۔ جب کہ حذب اختلاف کی جماعت نے ہندو گروپوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے بی جے پی کی انتخابی چال قرار دیا۔

انتخابات قریب آنے کے ساتھ ہی حکمران جماعت جانتی ہے کہ اس نے لوگوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔ 

کانگریس ایم ایل اے اجے سنگھ نے بی جے پی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کے فارمولہ کی ضرورت ہے۔ اسی لیے وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ان کی نظر میں اگر لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگ جائیں تو انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ مگر وہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے بارے میں فکر مند ہیں۔اس سےاتفاق کرتے ہوئےجےڈی ایس کےصدرایچ ڈی کمارسوامی نے کہا کہ ہندواورمسلمان گزشتہ کئی سالوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ بی جے پی صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے دونوں مذہب کے ماننے والوں کے درمیان امن و امان میں خلل ڈال رہی ہے۔

میں ان سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ وہ اب اس کو روک دیں۔ اسی درمیان بی جے پی کے بعض لیڈروں نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام برادریوں کو کاروبار کرنے کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ بی جے پی ایم ایل اے انیل بینکے نے کہا کہ ایک وکیل کے طور پر میں یہ کہوں گا کہ ہر کمیونٹی کو کاروبار کرنے کا مساوی حق اس ملک میں حاصل ہے۔ لوگوں کوخود یہ فیصلہ کرنا چاہیےکہ وہ کہاں سے اور کس سے خریدیں۔ بی جے پی کے ذرائع نے بتایا کہ بینکے کا بیان کئی طریقوں سے سفارتی رہا ہے۔ جب انہوں نے کاروبار کرنے والے مسلمانوں کے حق میں بات کی تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ فیصلہ کریں گے کہ انہیں کہاں سے کیا خریدنا ہے۔

مسلمانوں کے حق میں بولنے والے بی جے پی کے ایک اور لیڈر ایچ وشواناتھ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، ایک چھوٹے تاجر پر پابندی لگانا درست نہیں ہے۔ ہم اس کی روزی روٹی برباد کر رہے ہیں اور انسانی رشتوں کو برباد کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق وشوناتھ کو پارٹی میں باغی لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم بعض رہنماؤں نے حلال گوشت کی بالکل نئی تعریف کی ہے۔

بی جے پی کے باسنا گوڈا پاٹل یتنال نے کہا کہ حلال کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے تھوکنا۔ یہ کھانے پر تھوکنے کا کلچر ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔ ہم ہندو کھانے کو 'پربرہما' یابھگوان مانتے ہیں۔ ہندو مذہب میں حلال یا کھانے پر تھوکنے کی اجازت نہیں ہے اور اس لیے اس پر پابندی لگانا درست ہے۔ اس سلسلے میں حلال کے معنی بتاتے ہوئے جامع مسجد، بنگلور کے امام مولانا مقصودعمران راشدی نے کہا کہ جب آپ گلا کاٹ کر جانور سے خون نکالتے ہیں اور گوشت پیش کرتے ہیں توہم اسے حلال کہتے ہیں۔

مسلمان جب جانور کو ذبح کرنےکا کام کرتے ہیں تووہ اللہ کے نام پر کرتے ہیں۔ اب ہندو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو نذرانہ دے چکے ہیں۔ اگر وہ اللہ کو پیش کیا جائے تو ہم وہ گوشت بھی نہیں کھا سکتے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تاجراللہ کےنام پر تجارت شروع کر رہا ہو۔

یہاں حلال گوشت تنازعہ سب نے الگ الگ باتیں کہی ہیں۔ وہیں ریاست کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسواراج بومئی نے اس مسئلہ پر غور کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ اب اٹھایا گیا ہے،ہم اس کا جائزہ لیں گے۔ یہ معاملہ کئی سالوں سے چل رہا تھا اب یہ منظر عام پر آیا ہے۔