مندر۔ مسجد سب ایک ہیں۔ باشا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-02-2021
بنگلورو کے کاروباری ایچ ایم جی باشا
بنگلورو کے کاروباری ایچ ایم جی باشا

 

 

 پرتیبھا رمن / نئی دہلی

ہندومسلم اتحاد کی ایک سے بڑھ کر ایک مثالیں ہندوستان کو اس کی مضبوط بنیادوں اور روایات کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ صدیوں پرانی تہذیب ہے جس نے مل جل کر زندگی گزارنے کی راہ دکھائی ہے۔جو آج بھی ہندوستان کو دنیا میں سب سے مختلف بناتا ہے۔ اس ملک کے لوگ اسی لئے دنیا بھر میں گھل مل کر رہنے کےلئے جانے جاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی سرزمین پر محبت کا سبق ملتا ہے۔ اسی کی ایک مثال ہیں بنگلورو کے ایک کاروباری ایچ ایم جی باشا ۔ جنہوں نےملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یک جہتی کی فروغ کےلئے بنگلورو میں ہوسکوٹ کے ایک ہنومان مندر کی توسیع کے لئے تقریبا 1 کروڑ روپے کی زمین کو عطیہ کرنے کی وجہ سے خبروں میں تھے ۔

بلا شبہ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔ ان کا یہ عمل آج تک جاری اور ساری ہے، جبکہ آج وہ عمر کے 65 سال پورے کر چکے ہیں- انہوں نے کہا کہ رام مندر ہو یا بابری مسجد ان کے لئے یہ سب ایک جیسے ہیں کیونکہ یہ خدا کی ذات کے نام پر وقف ہیں ۔بحیثیت ایک ہندوستانی ہونے کے ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئے - ایسے وقت میں جب کچھ لوگوں سے ایودھیا میں عبادت گاہ کے لئے چندہ دینے پر سوال کیا جاتا ہے اور دوسروں کو اس سے باز رہنے کے لئے بھی کہا جاتا ہے ، باشا نے مذہب کے نام پر تفریق کرنے والوں کو بیمار دماغ کے مترادف قرار دیا۔

باشا لاری کے ذریعہ ہونے والے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔ اگرچہ ان کا کاروبار کورونا کی وجہ سے خاصہ متاثر رہا ، لیکن خدمت خلق کی ان کی مخیر سرگرمیاں مسلسل جاری رہیں۔ انہوں نے کہا کہ  ہم اتنے سارے پیسوں کا کیا کریں گے؟ ہم کھانا کھا سکتے ہیں ، کپڑے پہن سکتے ہیں ، پناہ گاہ حاصل کرسکتے ہیں ، راجکمار ، وشنووردھن جیسے پسندیدہ اسٹارز کی فلمیں دیکھ سکتے ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ لیکن ان سب کے بعد آخر میں ہم سب اکیلے ہی مر جاتے ہیں۔

دراصل مندر چھوٹا ہونے کے سبب عقیدت مندوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ مندر کمیٹی نے بھی پہلے مندر کی توسیع کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس کے پاس زمین نہیں تھی۔مندر کے ساتھ ہی باشا کی زمین تھی، اس کے لئے مندر کمیٹی ان سے بات کرنے سے کترا رہی تھی۔ اس کے بعد حال ہی میں باشا نے ایک دن مندر میں دیکھا کہ عقیدت مند بہت ہی چھوٹی جگہ پر پوجا کرتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ اس سے عقیدت مندوں کو کافی پریشانی ہوتی ہوگی۔ ایسے میں وہ خود آگے آئے اور مندر کمیٹی سے زمین عطیہ کرنے کی بات کی۔

اب مندر کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ چھوٹے ہنومان مندر کے سامنے مقامی لوگوں نے باشا کے پوسٹر اور بینر لگا دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس طرح کی نیک سرگرمیوں میں ملوث ہو کر اپنے لئے ایک نام پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ باشا نے مندروں اورمساجد کی پیسوں اورزمین دونوں چیزیں عطیہ کرکے مدد کی ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے تدفین کے لئے زمین حاصل کرنے میں بھی لوگوں کی مدد کی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا لوگوں نےان سے مذہبی طور پرغیرجانبدار ہونے کے حوالے سے پوچھ گچھ نہیں کی، تو ان کا جواب تھا کہ جب میرے کنبے کو کوئی مسلہ نہیں ہوتا تو انہیں کیوں پریشانی ہوگی ؟

aaaaasdfg

انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے تین بچے بھی ان کی روایت کو آگےبڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہیں۔ یہ سب شادی شدہ ہیں۔ ان کی اپنی زندگی ہے ، لیکن وہ مذہب سے قطع نظر جو کچھ بھی بن پڑتا ہے، عطیہ دیتے رہتے ہیں۔ باشا ایک پُرسکون زندگی بسر کرتے ہیں جو ان کے متعدد اعلیٰ اعمال کے باوجود تصنع سے پاک ہے۔ وہ بنگلورو کے وائٹ فیلڈ میں رہتے ہیں اور حیرت سے سوچتے ہیں کہ اس ملک میں مذہبی عدم استحکام کے متعدد واقعات کیوں ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ لگتا نہیں کہ ایسے لوگ اپنی عقل سوچتے ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں اپنے فایدے کے لئے انھیں بھڑکاتی ہیں اور یہ معصوم لوگ ان کا شکار بنتے ہیں ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اب ہم فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے کے لئے بیانیے کو تبدیل کرسکتے ہیں باشا کہتے ہیں کہ خوف ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ آپ یا توخاموش رہیں یا پھرآپ جیل جائیں۔

باشا مشکور ہیں کہ ان کے والدین نےانہیں خدااوردین کا صحیح مطلب سکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی دعاؤں کی برکت سے میں جوکچھ کر رہا ہوں اس کے قابل بنااوراس کوشش میں میرے خاندان اورمیرے کاروبار نے میری بھرپور مدد کی ہے۔