تشددزدہ ہوڑہ میں ایک شادی بن گئی ہندو۔مسلم یکجہتی کی مثال

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 14-06-2022
تشددزدہ ہوڑہ میں ایک شادی بن گئی ہندو۔مسلم یکجہتی کی مثال
تشددزدہ ہوڑہ میں ایک شادی بن گئی ہندو۔مسلم یکجہتی کی مثال

 

 

ہوڑہ(مغربی بنگال): ہوڑہ میں جب احتجاج اور تشدد کا دور جاری تھا ،اسی بیچ ہندو۔مسلم ہم آہنگی کا بھی ایک واقعہ رونما ہورہا تھا جو ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں جو سیاسی مقاصد کے لئے دونوں گروہوں کے بیچ خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ مغربی بنگال کے ہوڑہ ضلع میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کے درمیان دیہی ہوڑہ سے بھائی چارے کی ایک خوبصورت تصویر سامنے آئی ہے۔

تشدد کے درمیان، ہندوؤں نے مسلم لڑکی پاکیزہ کی شادی دھوم دھام سے کروائی۔

پیغمبر اسلام کے خلاف متنازعہ ریمارکس کے خلاف احتجاج کے سبب ہوڑہ میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

ٹرینیں روکی گئیں اور ہنگامہ ہوا۔ ہوڑہ کا الوبیڑیا علاقہ ہنگامہ کے زد میں زیادہ آگیا تھا۔ اس دوران باہمی بھائی چارے کی تصویر سامنے آئی۔الوبیڑیا کے کھلسانی میں ایک غریب لڑکی کی شادی ہندو۔مسلم بھائی چارہ کی گواہ بن گئی۔

یہاں ہندوبھائیوں نے مل جل کر ایک مسلم لڑکی پاکیزہ کی شادی کرائی اور اسے پوری حفاظت کے ساتھ اس کے سسرال تک پہنچایا۔ تشدد زدہ ہوڑہ میں بیٹی کی بخیروعافیت رخصتی کے بعد خاندان نے راحت کی سانس لی۔

بتا دیں کہ گزشتہ تین دنوں سے مسلسل پرتشدد واقعات کے بعد ریاستی حکومت نے تشدد سے متاثرہ علاقوں سمیت پورے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کر دی گئی تھی، حالانکہ پیر سے انٹرنیٹ سروس دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔

مغربی بنگال حکومت نے تشدد پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس نے تشدد کے پیش نظر تقریباً 200 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے والوں کو سخت وارننگ دی ہے، لیکن اس دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی یہ مثال زیر بحث ہے۔

عیدالنسا ملک اپنے بچوں کے ساتھ کھلسانی، الوبیڑیا میں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر کا آٹھ سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ مرحوم کا سائیکل گیراج ، خاندان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ بڑی بیٹی کی تین سال قبل شادی ہوئی تھی۔وہیں جنوبی 24 پرگنہ کے بروئی پور میں تین ماہ قبل ان کی بیٹی پاکیزہ کی شادی مکبر شیخ کے ساتھ طے ہوئی تھی۔

دونوں خاندانوں کی رضامندی سے شادی کی تاریخ 12 جون مقرر کی گئی۔ اس دوران تیاریاں جاری تھیں۔

اتفاق یہ ہوا کہ نوپور شرما کے متنازعہ بیان کے خلاف جمعرات کو اقلیتی برادری کے ہزاروں لوگ سڑک پر نکل آئے۔

دوسرے دن یعنی جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد ہزاروں مظاہرین پھر سڑکوں پر نکل آئے۔ اس بیچ پتھراؤ ہوا اور پولیس پر بم باری بھی کی۔ الوبیڑیا میں ایک جگہ پولیس بوتھ اور جیپ کو بھی آگ لگا دی گئی۔

اولبیڑیا سے لے کر شہری علاقے کے ڈومجور تک مظاہرین نے ہنگامہ کیا۔ حالات کو بے قابو ہوتے دیکھ کر ریاستی حکومت نے انٹرنیٹ سروس بند کر دی اور دفعہ 144 نافذ کر دی۔

بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر عیدالنسا ملک کی بے چینی بڑھ گئی۔ شادی میں آنے والے رشتہ دار بھی نہ آسکے۔ پاکیزہ کی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد نے شادی کی تاریخ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس دوران مقامی کلب کے ممبران مسیحا بن کر سامنے آئے۔ کلب کے دیگر اراکین بشمول تاپس، لکشمی کانت، اتم سامنے آئے اور پاکیزہ کی والدہ سے کہا کہ وہ شادی ملتوی نہ کریں بلکہ 12 جون کو شادی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

کلب کے ارکان نے پولیس سے مدد مانگی۔ پولیس والے بھی مدد کے لئے تیار ہوگئے۔

بارات، اتوار کو کلب کے ارکان اور پولیس کی موجودگی میں پہنچی۔ اس کے بعد پاکیزہ اور مکبرشیخ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ تاپش، لکشمی کانت اور اتم وغیرہ کی مدد سے پاکیزہ کی شادی بحسن وخوبی انجام کو پہنچی اور وہ سسرال کو رخصت ہوئی۔

تینوں مقامی ہندو نوجوانوں کے مطابق وہ بچپن سے اس محلے میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہر کوئی سب کے لیے ہے۔

ذات پات مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔جب کہ عیدالنسا،تینوں ہندونوجوانوں کی مشکور ہیں کہ انہوں نے ان کی بیٹی کی شادی میں مدد کی۔ انھوں نے کہا کہ اللہ ان کی ہمیشہ حفاظت فرمائے۔