امریکا : دو خواتین سائنسدانوں نے تجربہ گاہ میں ماں کا قدرتی دودھ ایجاد کرلیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-06-2021
قدرتی دودھ ایجاد
قدرتی دودھ ایجاد

 

 

نارتھ کیرولائنا: امریکا کی دو خواتین سائنسدانوں نے تجربہ گاہ میں ماں کا قدرتی دودھ ایجاد کرلیا ہے جبکہ اس مقصد کےلیے انہوں نے نسوانی چھاتی سے حاصل کردہ انسانی خلیے استعمال کیے ہیں۔

 لیلا اسٹرکلینڈ اور مشیل ایگر نامی ان دونوں خواتین سائنسدانوں نے ایک اسٹارٹ اپ کمپنی ’’بایوملک‘‘ بھی قائم کردی ہے تاکہ اس دودھ کو تجارتی پیمانے پر پیش کیا جاسکے۔

 اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تجربہ گاہ میں تیار کردہ ’’قدرتی ماں کا دودھ‘‘ آئندہ تین سال تک بازار میں دستیاب ہوگا۔ واضح رہے کہ ماں کے دودھ میں کچھ ایسے پیچیدہ لیکن نہایت اہم غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں جو نوزائیدہ بچے کی ذہنی و جسمانی نشوونما کےلیے بے حد ضروری ہوتے ہیں۔

 عام طور پر نوزائیدہ بچوں کےلیے پیدائش کے پہلے چھ ماہ تک ماں کا دودھ ہی بہترین غذا قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم بہتر ہے کہ ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو دو سال تک اپنا دودھ پلائے۔طبّی طور پر بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ گائے، بھینس، بھیڑ، بکری یا ڈبے کا دودھ کسی بھی طرح ماں کے قدرتی دودھ کا متبادل نہیں بن سکتا۔

 البتہ ضروری لیکن پیچیدہ اجزاء کی وجہ سے اب تک تجربہ گاہ میں ماں کے قدرتی دودھ کی نقل تیار نہیں کی جاسکی تھی۔ اسٹرکلینڈ اور ایگر نے یہی کامیابی حاصل کی ہے، جس کےلیے انہوں نے خواتین کی چھاتیوں سے وہ مخصوص خلیے الگ کیے جو دودھ بناتے ہیں۔

پھر کئی ماہ کی مسلسل تحقیق اور کوششوں کے بعد وہ ان خلیوں سے ایسا دودھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں جو بالکل ان ہی پیچیدہ اور غذائی اجزاء مشتمل ہے جو ماں کے قدرتی دودھ میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بایوملک‘‘ (Biomilq) میں وہ سیکڑوں پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، فیٹی ایسڈز اور دوسرے روغنیات (لپڈز) ’’وافر مقدار‘‘ میں موجود ہیں جو قدرتی ’’ماں کے دودھ‘‘ کا خاصّہ ہوتے ہیں۔ یعنی تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا یہ دودھ ’’ماں کے قدرتی دودھ‘‘ سے ہر ممکن حد تک قریب ہے۔

 لیلا اسٹرکلینڈ نے ویب سائٹ ’’انسائیڈر‘‘ کی نمائندہ خاتون کو بتایا کہ چھاتی سے دودھ بنانے والے خلیے حاصل کرکے تجربہ گاہ میں ان کی افزائش کرنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان خلیوں کو بالکل ویسا ماحول فراہم کرنا بھی اشد ضروری ہوتا ہے کہ جیسا زنانہ چھاتی کے اندر، قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ ’’ہمارا اصل مفروضہ یہی رہا ہے کہ (ماں کے) قدرتی دودھ میں شامل اجزاء آپس میں مل کر ایک متحرک نظام کی طرح کام کرتے ہیں،‘‘ اسٹرکلینڈ نے کہا۔

 ’’ہمارے تازہ ترین کام سے بھی یہی ظاہر ہے کہ (ماں کے قدرتی) دودھ کی بیشتر پیچیدگی اور غذائیت حاصل کی جاسکتی ہے بشرطیکہ تجربہ گاہ والے ماحول میں بھی ان (دودھ خارج کرنے والے) خلیوں اور انہیں درپیش ماحول کے درمیان وہی نازک تعلق برقرار رکھا جائے، جو انسانی جسم کے اندر موجود رہتا ہے،‘‘ اسٹرکلینڈ نے وضاحت کی۔

 اس دودھ کی تجارتی پیمانے پر تیاری، پیکیجنگ کے بعد اسے مناسب مدت تک استعمال کے قابل بنانا، صارفین کےلیے اس کی قیمت قابلِ برداشت رکھنا اور اس پورے عمل کی متعلقہ امریکی ادارے (ایف ڈی اے/ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) سے منظوری وہ اہم ترین مراحل ہیں جو ’’بایوملک‘‘ کو آئندہ دو سے تین سال میں طے کرنے ہیں۔

تاہم اسٹرکلینڈ اور ایگر، دونوں پرامید ہیں کہ یہ مراحل بھی بروقت اور بحسن و خوبی طے ہوجائیں گے اور ان کی مقرر کردہ تاریخ تک ’’بایوملک‘‘ مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔