بچوں کی صحت کے لئے فوڈ لیبلز کو اپنایا جائے: ماہرین

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-11-2021
 بچوں کی صحت کے لئے فوڈ لیبلز کو اپنایا جائے: ماہرین
بچوں کی صحت کے لئے فوڈ لیبلز کو اپنایا جائے: ماہرین

 

 

آواز دی وائس،علی گڑھ

 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ماہرین نے ڈبہ بند اور پروسیسڈ غذاؤں و مشروبات پر پیکٹ لیبلنگ (ایف او پی ایل) کے سلسلہ میں فوری پالیسی ایکشن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بچوں کی صحت کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش پر ملک گیر اپیل کی تائید کی ہے۔

اے ایم یو کے اولڈ بوائز لاج میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں اے ایم یو کے سوشل ورک، کمیونٹی میڈیسن اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے دیگرصحت رہنماؤں کے ہمراہ ملک میں ڈبہ بند غذائی مصنوعات کی مؤثر ضابطہ بندی اور واضح پیکٹ لیبلنگ پر زور دیا۔

انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی کمیٹی پی وی سی ایچ آر، پیپلز انیشیئٹیو فار پارٹیسیپیٹری ایکشن آن فوڈ لیبلنگ (پیپل)،سوشل ورک و سوشیالوجی و کمیونٹی میڈیسن شعبہ، اے ایم یو، سوشل ورک شعبہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی، میگھالیہ اور چائلڈ لائن انڈیا نے بچوں کے غذائی حقوق پر اس مذاکرہ کا انعقاد کیا۔ شرکاء نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بچپن میں موٹاپے، قلبی امراض، ذیابیطس اور غیر متعدی امراض کا ایک بڑا سبب پروسیسڈ اور ڈبہ بند غذائی مصنوعات ہیں جس کے کافی شواہد موجود ہیں۔

پروفیسر پرویز قمر رضوی، چیئرمین، پلانٹ پروٹیکشن شعبہ، اے ایم یو پروگرام کے مہمان خصوصی تھے، جبکہ پروفیسر عبدالمتین، (یو ایس ٹی ایم، میگھالیہ، اور سابق چیئرمین، سوشیالوجی شعبہ، اے ایم یو) پینل کے کلیدی ارکان میں شامل تھے۔

مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر علی جعفر عابدی، اسسٹنٹ پروفیسر، کمیونٹی میڈیسن شعبہ، اے ایم یو نے کہا کہ 14/ملین سے زیادہ ہندوستانی بچے موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں، جو بالغ ہونے پر این سی ڈی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ریگولیٹری اقدامات جیسے کہ غذائی مصنوعات کو عالمی اور سائنسی معیارات کے مطابق کرنے کے لئے صنعتوں کو مجبور کرنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور پیپلز وجیلنس کمیٹی برائے انسانی حقوق (پی وی سی ایچ آر) کے سی ای او ڈاکٹر لینن رگھوونشی نے کہا کہ پیپل تنظیم دراصل پالیسی سازوں، غذاسے متعلق رہنماؤں اور صنعتوں کو یہ یاد دلانے کی ایک کوشش ہے کہ دستور ہند کی دفعہ 21 کے مطابق بچوں کو صحت اور غذائیت کا حق حاصل ہے۔

بچوں کو ان کا حق دیا جائے کیونکہ غیر صحت بخش غذائیت سے ان کا پورا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ بی ایچ یو کے بعد اے ایم یو کی طرف سے یہ تائید ہدف کے حصول میں بہت مددگار ہوگی۔

کٹس انٹرنیشنل کے سی ای او ستیہ پال سنگھ نے کہا، ”آگاہ کرنے والے فوڈ لیبل سے بچوں کا مستقبل بہتر ہوگا۔ پیکیج کے اوپر واضح لیبل سے صارفین کو غذائی مصنوعات میں موجود شکر، سوڈیم، سیچوریٹیڈ چربی، ٹرانس چربی وغیرہ کی جانکاری حاصل ہوگی“۔

مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، جے این ایم سی کے ڈاکٹر محمد کاشف نے کہا، ”حالیہ برسوں میں ہندوستان میں ہونے والی تمام اموات میں ساٹھ فیصد سے زائد اموات غیرمتعدی امراض (این سی ڈی) جیسے کہ امراض قلب، کینسر، امراض تنفس، ذیابیطس وغیرہ سے ہوئی ہیں۔

ڈبہ بند اور پروسیسڈ مصنوعات کے باعث ناقص غذا سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں“۔ سوچ- بیانڈ امیجینیشن کے ڈاکٹر سائمن جوڈ کے مطابق تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چلی جیسے ممالک جنہوں نے ایف او پی ایل کے وارننگ لیبل سسٹم کو اپنایا ہے، انتہائی غیر صحتمند الٹرا پروسیس شدہ غذاؤں اور مشروبات کی کھپت کو کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

برازیل، اسرائیل، چلی اور حال ہی میں کولمبیا نے اپنے کھانے کے پیکٹوں پر ہائی وارننگ لیبلز کو اپناکر دنیا کو اچھا پیغام دیا ہے۔

ساوتری بائی پھولے ویمنز فورم کی کنوینر شروتی ناگونشی نے کہا کہ 14.4 ملین سے زائد موٹے بچوں کے ساتھ ہندوستان دنیا میں بچپن میں موٹاپے کے شکار بچوں کی تعداد کے معاملہ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2025 تک یہ تعداد حیرت انگیز طور پر 17 ملین تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اس بات کے ثبوت ہیں کہ کووِڈ وبائی مرض نے بچوں کے موٹے ہونے کے خطرے کو ممکنہ طور پر بڑھا دیا ہے۔

زیادہ وزن یا موٹاپے کا براہ راست تعلق جان لیوا غیر متعدی امراض جیسے کہ دل کی بیماری، ذیابیطس اور کینسر سے ہے۔ پروفیسر نسیم احمد خان، چیئرمین، سوشل ورک شعبہ، اے ایم یو نے شکریہ کے کلمات ادا کئے جب کہ ڈاکٹر ایس این فاطمی، ایسوسی ایٹ پروفیسر، سوشیالوجی شعبہ، اے ایم یو نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔