کورونا کے دوران روزہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب تقریباً دنیا بھر کے مسلمان کووِڈ-19وَبائی مرض کے دوران روزے رکھ رہے ہیں
یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب تقریباً دنیا بھر کے مسلمان کووِڈ-19وَبائی مرض کے دوران روزے رکھ رہے ہیں

 

 

نئی دہلی

روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے۔ یہ مسلسل دوسرا موقع ہے جب دنیا بھر کے سارے مسلمان کورونا کی ہنگامی صورت حال کے دوران روزے رکھ رہے ہیں۔ اس خدائی عذاب نے کروڑوں لوگوں کو اپنا شکار بنایا اور لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ اس ناگہانی صورت حال میں روزے رکھنے کا معاملہ اور بھی اہمیت اختیار کر لیتا ہے، خصوصاً کمزور قوتِ مدافعت کے حامل افراد روزے کے حوالے سے ممکنہ طور پر تذبذب کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں، برطانیہ سے جاری ہونے والے طبی جرنل ’’جرنل آف گلوبل ہیلتھ‘‘ نے گزشتہ سال کووِڈ-19کے دوران ماہِ رمضان کے حوالے سے اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں رواں سال مسلمانوں کو وَبائی مرض کے دوران روزے رکھنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ برطانیہ بھر میں روزے رکھنے کے باعث مسلمانوں میں کووِڈ-19 سے زیادہ اموات واقع ہوئی ہوں۔ رپورٹ کہتی ہے، ’’ہم اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ بات انتہائی وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ماہِ رمضان میں جو عبادات کرتے ہیں، اس کے باعث نہ تو ان کا کووِڈ-19سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور نہ ہی زیادہ اموات کا‘‘۔

محققین نے اس تحقیقی رپورٹ کیلئے، نمونے کے طور پر برطانیہ کی ان آبادیوں کا جائزہ لیا، جہاں مسلمانوں کی آبادی 20فی صد یا اس سے زائد ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ، ابتدائی خدشات کے برعکس، رمضان کریم کے دوران ان آبادیوں میں کووِڈ-19کے باعث اموات میں درحقیقت کمی دیکھی گئی۔ رپورٹ مزید کہتی ہے کہ، ’’درحقیقت، اموات کی شرح میں کمی کا رجحان رمضان کے بعد بھی جاری رہا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خطرناک تاخیری اثرات بھی نہیں دیکھے گئے‘‘۔

یادرہے کہ، گزشتہ سال برطانیہ میں ماہِ رمضان لاک ڈاؤن میں رہتے ہوئے گزارا گیا تھا اور برطانیہ بھر میں دیگر سماجی تقریبات پر پابندی کے ساتھ ساتھ نماز اور تراویح کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد تھی۔ اس لیے ’’جرنل آف گلوبل ہیلتھ‘‘ کی رپورٹ کو اس تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

صحت پر اثرات

ماہِ رمضان میں لوگ سحر و افطار (اور کچھ لوگ الگ سے رات کا کھانا بھی کھاتے ہیں) کے موقع پر زیادہ حراروں (ہائی کیلوریز) والی غذائیں کھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد موٹاپے اور معدے میں دائمی جلن جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں روزہ داروں میں سوزش پیدا کرنے والے خلیوں کا ارتکاز 2 سے 3 گنا بڑھ جاتا ہے اور متاثرہ افراد خودکار بیماری (آٹو اِمیون) جیسے گٹھیا کا مرض، سوزش کی بیماری جیسے انسولین کے خلاف مزاحمت، شحمی مادوں کے جم جانے کے باعث شریانوں کا نقص ، مختلف اقسام کے کینسر کے باعث بافتوں کو نقصان اور دل کے امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

البتہ، روزے اور کھانے پینے کی روزمرہ اشیا کے انسانوں اور جانوروں پر کیے جانے والے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے، ناصرف صحت مند افراد بلکہ دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کی صحت کے کئی اشاریوں میں بہتری آجاتی ہے۔