کیا ڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
کیا ڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟
کیا ڈیمنشیا کی شناخت صرف ایک دن میں ممکن ہے؟

 

 

آواز دی وائس، ایجنسی

لندن:اگرچہ اب طب و صحت میں مصنوعی ذہانت کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب اسے ڈیمنشیا(Dementia) جیسے مرض کے لیے بھی آزمایا گیا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس (artificial intelligence) کی بدولت اب ڈیمنشیا جیسے مرض کو صرف ایک اسکین سے شناخت کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح بیماری کی شدت سے پہلے ہی موذی مرض کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج سے وابستہ ڈاکٹر ٹموتھی رِٹمان نے یہ تحقیق کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے ڈیمنشیا جیسے تکلیف دہ اور پیچیدہ مرض کی شناخت بہت پہلے ممکن ہوگی جس سے علاج کے نئی راہیں کھلیں گی اور جلد ہی انسانوں پر باقاعدہ اس کی آزمائش کی جائے گی۔

یہ ایک حیرت انگیز پیش رفت ہے جو لوگوں کو برباد کرنے والے مرض سے متعلق ہے۔

ڈاکٹر ٹموتھی نے کہا کہ اب میں کسی مریض کو قدرے اعتماد سے آگاہ کرسکتا ہوں کہ یہ مرض کس درجے پر ہے اور کیسے آگے بڑھے گا۔ اس سے ان کی زندگی کو آسان کرنے اور علاج میں بہت مدد ملے گی۔

پہلے مرحلےمیں کیمبرج میں واقع ایڈن بروکس ہسپتال اور دیگر شفاخانوں کے 500 مریضوں پر اسے آزمایا جائے گا۔

اس کا الگورتھم خاص طور پر بنایا گیا ہے جو دماغی اسکین میں موجود بعض خدوخال کو دیکھکر مرض کی پیشگوئی کرے گا اور بعد ازاں ڈاکٹراس کا حقیقی انداز میں جائزہ لیں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی شناخت کے بعد اس مرض کی شدت روکنے میں بہت مدد ملے گی اور مزید نقصان سے بچاجاسکتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر لارا فِپس کہتی ہیں کہ اصل حملے سے 15 تا 20 برس پہلے اس مرض کی پیشگوئی ممکن ہے تاہم اے آئی سے اس میں مزید سہولت ملتی ہے۔ اس وقت ڈیمنشیا کی شناخت کے لیے پہلے دماغ کے اسکین لیے جاتے ہیں، اس کے بعد کئی مرتبہ اکتساب اور دماغی صلاحیت کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔

لیکن اے آئی سے یہ کام بہت تیز ہوجائے گا اس طرح ڈیمنشیا کے ممکنہ مریض اور ان کے خاندانوں کو بہت سہولت حاصل ہوسکتی ہے۔

تاہم بعض ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ صرف ایک اسکین یا ایک بایومارکر سے ڈیمنشیا کی کامل شناخت نہیں ہوسکتی اور اس کے لیےضروری ہے کہ مریض کے کئی ٹیسٹ لئے جائیں انہوں نے اعتراف کیا کہ اے آئی سے اس مرض کی شناخت میں مدد لی جاسکتی ہے۔

اس پر ڈاکٹر ٹموتھی نے کہا کہ اسی لیے وہ مصنوعی ذہانت کا سافٹ ویئر پہلے 500 مریضوں پر آزمائیں گے اور اس کے بعد ان تمام مریضوں کا روایتی طریقوں سے جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد اے آئی کی افادیت سامنے آسکے گی۔