امریکہ : ایک ہی اسکول کے سو سے زائد طلبہ کو دماغ کا کینسر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-04-2022
امریکہ : ایک ہی اسکول کے سو سے زائد طلبہ کو دماغ کا کینسر
امریکہ : ایک ہی اسکول کے سو سے زائد طلبہ کو دماغ کا کینسر

 

 

نیویارک : امریکہ میں ایک ہی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے 100 سے زیادہ لوگوں میں میں دماغ کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے۔خدشہ ہے کہ پہلے جوہری بم کی تیاری میں استعمال ہونے والی یورنیم سے تابکاری کی زد میں آنے والی زمین نے انہیں بیماری میں مبتلا کیا۔

برطانوی اخبار دا ڈیلی میل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گلیوبلاسٹوما نامی سرطان میں مبتلا ہونے والے تمام افراد ریاست نیوجرسی کے علاقے ووڈبرج میں کولونیا ہائی اسکول میں پڑھنے یا کام کرنے جاتے رہے ہیں۔

لیوبلاسٹوما کینسر کی خاص قسم ہے۔ سرطان اور یورنیم سے ہونے والی تابکاری کے درمیان تعلق کا اسی وقت پتہ چلا جب اسکول کے سابق طالب علم ال لوپیانو جو اب ماحولیاتی سائنس دان ہیں نے دیکھا کہ جن لوگوں کو وہ جانتے ہیں وہ بیمار ہو رہے ہیں۔

ال لوپیانو نے انکشاف کیا کہ 20 سال قبل ان کے سر میں رسولی تھی۔ اس سے پہلے ان کی اہلیہ اس مرض میں مبتلا ہوئیں۔ اسی طرح ان کی بہن بھی دماغی رسولی کا شکار ہو کر فروری میں صرف 44 سال کی عمر میں چل بسیں۔ 50 سالہ سائنس دان کا دعویٰ ہے کہ اس مرض کا سراغ نمونے لینے والے اس قریبی پلانٹ سے لگایا جا سکتا ہے جہاں مین ہٹن پراجیکٹ کے تحت پہلے ایٹم بم کے لیے یورنیم استعمال کی گئی تھی۔

ال لوپیانو نے اپنی بہن ان کے بستر مرگ پر عہد کیا تھا کہ وہ بیماری کی وجہ کا پردہ فاش کریں گے انہوں نے مزید کہا: ’جب تک مجھے جواب نہیں مل جاتا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘ ال لوپیانو کے اخذ کردہ نتائج نے سکول میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور اسکول کے 13 سو موجودہ طلبہ میں سے بہت سے پریشان ہو گئے ہیں۔

ووڈ برج کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ال پیانو کے دعووں پر غور کر رہے ہیں تا کہ بیماری کی بنیادی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔ ال لوپیانو کو 2002 میں دماغ کی رسولی کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے اس وقت تک بیماری کا تعلق اسکول سے نہیں جوڑا جب تک کہ ان کی بیوی اور بہن بیمار نہ ہو گئیں۔ ان کی بہن انجیلا ڈی سیلیس مارچ میں جان کی بازی ہار گئیں جس کے بعد لوپیانو میں نے اس سلسلے تحقیق کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے کام شروع کیا لیکن جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ یا تو ووڈبرج کے ہائی اسکول میں کام کرتے تھے یا پڑھتے رہے ہیں۔

لوپیانو نے اپنی تحقیق کے بارے میں فیس بک پر پوسٹ کی اور جلد ہی محسوس کیا کہ متاثرہ افراد کی تعداد آسمان کو چھو رہی ہے۔ انہوں نے سی بی ایس نیوز کو بتایا: ’میں نے تحقیق کرنا شروع کیا تو مریضوں کی تعداد تین پانچ، پانچ سات اور سات سے 15 ہو گئی۔

’گذشتہ سال اگست تک مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ میری بہن کو پتہ چلا کہ خود اسے دماغی رسولی ہے۔ بدقسمتی سے مرض چوتھے سٹیج کا گلیوبلاسٹوما کینسر نکلا۔ دو گھنٹے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ میری بیوی کو بھی بنیادی دماغی رسولی ہے۔‘ رواں سال کے شروع میں لوپیانو کا ان باکس سکول کے سابق ہم جماعتوں اور اساتذہ کے پیغامات سے بھر گیا کہ وہ بھی دماغ کی انوکھے رسولی کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں۔

ان لوگوں کی اکثریت نے 1975 اور 2000 کے درمیان گریجویشن کی لیکن ایک کیس تازہ یعنی 2014 کا ہے۔ لوپیانو نے مزید کہا: ’مجھے جو چیز تشویش ناک لگتی ہے وہ یہ ہے کہ بنیادی دماغی رسولیوں ساتھ واقعی صرف ایک ماحولیاتی تعلق ہے اور وہ برقی چارج رکھنے والے ایٹمز کی تابکاری۔ یہ آلودہ پانی نہیں ہے۔ یہ ہوا نہیں ہے۔ یہ مٹی میں موجود کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بری عادتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہونے والا کچھ نہیں ہے۔

سٹیسی راموس ان لوگوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے لوپیانو سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جب وہ بیمار ہوئی تو ان کی عمر صرف 41 سال تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’41 سال کی عمر میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک بہت ہی منفرد نرم بافتوں والا ضرر رساں سرطانی ٹیومر سپنڈل سیل کارسینوما ہے جس نے میری آنکھ میں آنسوؤں کی نالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز ہوا۔ (میں سائی نس کینال کا نصف حصہ کھو چکی ہوں) رسولی ناک کے پچھلے حصے، میرے کان کی نالی میں یا اس کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی اور میرے دماغ کے قریب پہنچنے لگی۔ مجھے تین سے زیادہ سال پہلے سے کچھ علامات تھیں لیکن اس وقت تک پتہ نہ چلا جب تک مرض بڑھ نہ گیا۔ مجھے اس وقت دائیں کان اور کینسر والی طرف ٹیوب میں مسائل کا سامنا ہے جس کے بارے میں میں پریشان ہوں۔

لوپیانو سے رابطہ کرنے والے سو سے زیادہ لوگوں میں وہ ہیں جو کئی قسم کی بنیادی دماغی رسولی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مثال کے طور گلیوبلاسٹوما جیسی سرطانی رسولیاں۔ تاہم ان رسولیوں میں وہ بھی ہیں جو سرطان نہیں لیکن ان میں صوتی نیوروما، ہیمنگیوبلاسٹوما اور میننجیوما رسولیاں شامل ہیں جو معذوری کا سبب بن جاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں گلیوبلاسٹوما دماغی سرطان کی وہ قسم ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے۔

یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دماغ میں اعصاب کو سہارا دینے والے خلیے بے قابو ہو کر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ یہ تیزی سے پیدا ہونے والے خلیے دماغ کی قریبی بافتوں پر حملہ کرتے ہیں جس سے انہیں الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن عام طور پر جسم کے دوسرے حصوں میں نہیں پھیلتے۔ سرطان کی اس قسم میں مبتلا ہونے والوں میں بچ جانے کی شرح بہت کم ہے ہے۔ آدھے سے بھی کم مریض تشخیص کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ رہتے ہیں۔

تخمینہ بتاتا ہے کہ 30 ہزار میں سے ایک شخص کو اس قسم کا سرطان ہوتا ہے۔ لوپیانو نے اس بات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیق شروع کی کہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے سکول کی تاریخ کا مطالعہ کیا کہ اب جہاں سکول ہے وہآں اس سے پہلے کیا تھا؟ لوپیانو کہتے ہیں کہ’اس زمین پر کوئی عمارت نہیں تھی۔ یہاں جنگل تھا۔ ہائی سکول وہاں بننے والی پہلی عمارت تھی۔ اس لیے اس وقت شاید زمین میں کچھ نہیں تھا۔

ایک امکان جس پر وہ تحقیق کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ نمونے لینے والے قریبی پلانٹ کی آلودہ مٹی اس جگہ پر یورینیم کی کچ دھات لے کر آئی ہو گی۔ انہوں نے این جے سپاٹ لائٹ نیوز کو بتایا کہ یہ سکول مڈل سیکس سیمپلنگ پلانٹ سے 12 میل دور تھا جسے ایٹم بموں کے لیے یورینیم کی کچ دھات کو توڑنے خشک کرنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لوپیانو کا دعویٰ ہے کہ 1967 میں اس پلانٹ کی بندش کے بعد تابکاری سے آلودہ مٹی کو اس مقام پر اٹھایا گیا۔ اس سال کولونیا ہائی سکول تعمیر کیا گیا۔ ان کا خیال ہے کہ اس مٹی کا کچھ حصہ کسی نہ کسی طرح سکول والی جگہ پر پہنچ گیا۔