کینسر کا علاج ہاتھی کے جین سے ممکن

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-07-2022
کینسر کا علاج ہاتھی کے جین سے ممکن
کینسر کا علاج ہاتھی کے جین سے ممکن

 


 نیو یارک : کینسر آج بھی ایک موذی مرض ہے۔ اس کا علاج اب بھی ممکن نہیں ہے۔ پہلے یا دوسرے مرحلے میں اس کی تخشیص ہوجائے تو کسی حد تک زندگی بچ جاتی ہے لیکن اس کے بعد بات دعاوں پر آجاتی ہے۔ اس بیماری پر آئے دن تحقیق ہوتی رہتی ہیں ۔طبی سائنس  اس کو قابو میں کرنے کے لیے خاک چھان رہی ہے۔ اب ایک نئی سائنسی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہاتھیوں میں موجود ایک جین سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔

 سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کے جسم میں ٹیومر سے لڑنے والے پروٹینز کی ایک فوج موجود ہے جو میوٹیٹڈ سیلز (کینسر کے خلیات) کو تباہ کر دیتے ہیں۔

اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں زمین کے سب سے بڑے زمینی جانور یعنی ہاتھی میں انسانوں کے مقابلے میں کینسر کا امکان پانچ گنا کم ہوتا ہے۔

ہاتھی کے ان جینز کو استعمال کرتے ہوئے کینسر، جو دنیا کے سب سے زیادہ مہلک امراض میں سے ایک ہے، کے لیے ایک سائز کی تھراپی تیار کی جا سکتی ہے جو اس کی تمام اقسام کے لیے سود مند ہو گی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ اور اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر فرٹز وولراتھ نے کہا: ’یہ پیچیدہ اور دلچسپ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ہاتھیوں میں (ان جینز) کا کس قدر متاثر کن حجم سے بھی کہیں زیادہ حصہ موجود ہے اور یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم ان جانوروں کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ ان کا تفصیلی مطالعہ بھی کریں۔‘

ان کے بقول: ’آخر کار ان (ہاتھیوں) کے جینیات اور فزیالوجی سب ارتقائی تاریخ کے ساتھ ساتھ آج کے ماحولیات، خوراک اور رویے سے تبدیل ہوئے ہیں۔ اپنے پانچ ٹن وزنی جسم اور لمبی عمر کے باوجود ہاتھی کینسر کے خلاف زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہیں جن میں اس مرض سے اموات کی شرح محض پانچ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں میں یہ شرح 25 فیصد تک ہے۔

اس رجحان نے کئی دہائیوں سے ماہرین حیاتیات کو حیران کر رکھا ہے کیوں کہ اصولاً حجم میں بڑی مخلوق کو زیادہ خطرہ ہونا چاہیے۔خلیے کسی بھی جاندار میں زندگی بھر تقسیم ہوتے رہتے ہیں اس لیے ہر ایک کو ٹیومر کا خطرہ ہوتا ہے۔

لیکن ہاتھیوں کو اپنے والدین سے پی53 نامی جین کے 40 ورژن وراثت میں ملتے ہیں جن میں سے 20 ماں اور 20 باپ کی طرف سے ملتے ہیں۔ انہیں 'جینوم کا گارڈین' کہا جاتا ہے۔باقی تمام میملز میں ان جینز کی تعداد دو ہوتی ہے۔بائیو کیمیکل تجزیہ اور کمپیوٹر سمیلیشن سے بھی ثابت ہوا ہے کہ 40 ورژن جینز ساختی طور پر قدرے مختلف ہوتے ہیں۔

ہاتھیوں میں یہ جینز کینسر کے خلاف سرگرمی کی ہماری معمول کے دو جینز کے مقابلے میں بہت وسیع رینج فراہم کرتے ہیں۔ انسانوں اور دیگر تمام میملز میں انہیں یہ جین ایک ماں اور ایک باپ کی طرف سےملتے ہیں۔

فرانس کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ سے وابستہ اور اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر رابن فاریئس کا کہنا ہے: ’یہ ہماری معلومات کے لیے ایک دلچسپ پیش رفت ہے کہ ہاتھی میں پائے جانے والا پی53 نامی جین کس طرح کینسر کی نشوونما کو روکنے میں معاون ہے۔

ان کے بقول: ’انسانوں میں یہی پی53 پروٹین یہ فیصلہ کرنے کے لیے ذمہ دار ہے کہ آیا خلیات کو پھیلنا بند کر دینا چاہیے یا خود مر جانا جانا چاہیے لیکن پی53 یہ فیصلہ کیسے کرتا ہے اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ ہاتھیوں میں متعدد پی53 شکلوں کا وجود مختلف صلاحیتوں کے ساتھ ٹیومر کو ختم کرنے والی سرگرمی پر نئی روشنی ڈالنے کے لیے ایک دلچسپ اور نیا طریقہ پیش کرتا ہے۔

جرنل مالیکیولر بائیولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہونے والے نتائج نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پی53 پروٹین کیسے متحرک ہوتے ہیں۔ وہ ایسی ادویات تیار کرنے کا دروازہ کھولتے ہیں جو کینسر پیدا کرنے والے ماحول کے خلاف اس کی حساسیت اور ردعمل کو بڑھاتی ہیں۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر کونسٹنٹینوس کاراکوسٹس نے اس حوالے سے بتایا کہ ’تصوراتی نظریے کے مطابق ساختی طور پر تبدیل شدہ پی53 پولز کا بڑھنا اجتماعی طور پر یا ہم آہنگی سے خلیے میں متنوع تناؤ کے ردعمل کو منظم کرتا ہے جو سیل ریگولیشن کا ایک متبادل میکانسٹک ماڈل قائم کرتا ہے جس کی بائیو میڈیکل ایپلی کیشنز کے لیے ممکنہ اہمیت ہے۔‘

ہاتھی کو ان کے قیمتی دانتوں کی وجہ سے بے دریغ شکار کیا جاتا ہے جس سے یہ معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ گذشتہ صدی کے دوران ہاتھیوں کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب افریقہ میں تقریباً چار لاکھ اور ایشیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف 30 ہزار ہاتھی رہ گئے ہیں۔ ایک صدی پہلے دونوں براعظموں میں ہاتھی عام تھے۔ ہاتھیوں کو ان کےقدرتی مسکن میں کمی اور گلوبل وارمنگ سے مزید خطرات کا سامنا ہے۔