گنج پن: پہلی مرتبہ جسم سےباہر بال کی کامیاب افزائش

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 25-10-2022
گنج پن: پہلی مرتبہ جسم سےباہر بال کی کامیاب افزائش
گنج پن: پہلی مرتبہ جسم سےباہر بال کی کامیاب افزائش

 


ٹوکیو:گنج پن جو بڑھتی ہوئی عمر کے مردوں کا ایک اہم مسلہ ہے جس کا سامنا اکثر مردوں کو کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں کھوپڑی کے درمیانے حصے میں سے بال غائب ہو جاتے ہیں ۔ میڈيکل اصطلاح میں اس بیماری کو اینڈروجینک ایلوپیسیا کہا جاتا ہے ۔ امریکہ کی نیشنل لائبرییری آف میڈیسن کے مطابق پچاس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے دنیا بھر کے آدھے سے زيادہ مرد کسی نہ کسی حد تک اس بیماری سے متاثر ضرور ہوتے ہیں

 مگر اب دائمی گنج پن کے شکار مریضوں کےلیے جاپان سے ایک امید بھری خبر آئی ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسانی بدن سے باہر کسی تجربہ گاہ میں بال اگائے گئے، انہیں منتقل کیا گیا جہاں ان کی افزائش دیکھی گئی ہے۔ جاپان کی یوکوہاما یونیورسٹی کے بایومیڈیکل انجنیئر تاتسوتو کیگی یاما اور ان کے ساتھیوں نے چوہوں کے اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) سے سہ جہتی لوتھڑا (آرگینوئڈ) بنایا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے اب انہیں بنانا آسان ہوگیا ہے اور یوں انہیں طبی تحقیق میں استعمال کیا جارہا ہے۔

گنج پن کے لیے نئی امید، پہلی مرتبہ جسم سےباہر بال کی کامیاب افزائش ویب ڈیسک اتوار 23 اکتوبر 2022 شیئرٹویٹشیئرای میلتبصرے مزید شیئر مزید اردو خبریں پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں بال اگا کر اسے گنج پن کے شکار چوہوں تک منتقل کرنے اور بڑھانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ یوکوہاما یونیورسٹی پہلی مرتبہ تجربہ گاہ میں بال اگا کر اسے گنج پن کے شکار چوہوں تک منتقل کرنے اور بڑھانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔

ماہرین نے نہ صرف ان سے بالوں کی افزائش کی ہے بلکہ اسے رنگت بھی دی ہے۔ پھر انہیں احتیاط سے گنج پن کے شکار چوہوں میں منتقل کیا گیا تو یہ بال اگنے لگے اور افزائش کے کئی سلسلے مکمل کئے۔

انسان ہو یا دیگر ممالیے، ان میں بالوں کی شاخیں اس وقت بنتی ہیں جب جاندار جنینی مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اوپری جلد (ایپی ڈرمس) اور نیچے سے منسلک بافتیں یا ٹشو باہم عمل کرتی ہیں اور یوں پورا عضو تشکیل پاتا ہے۔ اس عمل کو ایپی ڈرمل اور میسنکائمل انٹرایکشن کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے انہی دو پہلوؤں پر غور کیا ہے۔

سائنسدانوں نے چوہوں کےجنین سے اسٹیم سیل نکالے اور ان سے جلد یعنی ایپی تھیلیئل خلیات اور میسنکائمل خلیات کشید کئے۔ پھر انہیں میٹریجل میں کلچر کیا گیا جو چوہے سے حاصل کردہ ایک قدرتی  جھلی ہے۔ میٹریجل خلیات کو جمع کرکےانہیں ایک ساخت فراہم کرتی ہے۔ تاہم بعض خلوی ساختیں بنا میٹریجل کے بھی کاشت کی گئیں۔

اس طرض دواقسام کے خلیاتی لوتھڑے بنے اور بعد میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ایک منظم انداز اور ساخت میں ڈھل گئے۔ لیکن میٹریجل شامل کرنے سے ہی کامیابی ملی بقیہ خلیات ناکامی سے دوچار ہوئے۔

پھر جب دونوں اقسام یعنی ایپی تھیلیئل اور میسنکائما خلیات کے مجموعوں کو جوڑا گیا تو پہلے باریک بال نمودار ہوا اور 23 روز میں دو ملی میٹر تک لمبا ہوگیا۔ اس طرح پہلی مرتبہ خلوی سطح پر تجربہ گاہ میں بال اگایا گیا ہے۔

پھر ایک دوا ڈالی گئی جس سے بال اپنی رنگت حاصل کرنے لگے اور زیادہ قدرتی لگنے لگے۔ اس کے بعد مکمل گنجے چوہوں میں بال لگائے گئے اور مقصد یہ تھا کہ ان کےزندہ ہونے کا تعین کیا جائے۔

چوہوں کو اس موقع پر امنیاتی نظام دبانے والی ادویہ دی گئیں تو منتقل شدہ بال بڑھنے لگے، انہیں کاٹا گیا اور یوں دس ماہ تک بال نے افرائش کے کئی چکر مکمل کئے۔

اگرچہ چوہوں پر یہ ایک کامیاب تجربہ ہے لیکن انسانوں پر استعمال کرنے میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ انسانوں کے لیے جنین کی بجائے بالغان سے عطیہ کردہ خلیات لے کر انہیں ریورس انجینیئر سے گزار کر اسٹیم سیل بنایا جائے گا، اور توقع ہے کہ یہ عمل کارگرثابت ہوگا۔