ناسا :جیمز ویب دوربین کا کمال۔ 13 ارب سال پرانی کہکشاؤں کی پہلی تصویر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
ناسا :جیمز ویب دوربین کا کمال۔ 13 ارب سال پرانی کہکشاؤں کی پہلی تصویر جاری
ناسا :جیمز ویب دوربین کا کمال۔ 13 ارب سال پرانی کہکشاؤں کی پہلی تصویر جاری

 


واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے خلائی دوربین جیمز ویب کی مدد سے اربوں سال پرانے ماضی میں جھانکا ہے اور قدیم کہکشاؤں کی پہلی رنگین تصویر جاری کردی ہے۔ امریکہ کے مقامی وقت شام چھ بجکر 20 منٹ کے قریب امریکی صدر جو بائیڈن نے ویب ٹیلی سکوپ کے ذریعے لی گئی پہلی تصویر دکھائی جو دور دراز کہکشاؤں اور روشن ستاروں کا سمندر دھکاتی ہے۔ یہ تصویر ابھی تک خلا میں سب سے دور کا نظارہ ہے جس کو وائٹ ہاؤس میں ایک سکرین پر ناسا کے منتظم بل نیلسن کے تبصروں کے ساتھ پیش کیا گیا۔

حال ہی میں کہکشاؤں کی کھوج لگانے اور خلا میں دریافت کے نئے دور کی امید لے کر آنے والی دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ کو خلا میں بھیجا گیا ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کائنات کے ان حصوں کو دیکھنے کی کوشش کرے گی جنھیں ہبل سپیس ٹیلی سکوپ بھی نہیں دیکھ پائی ہے۔ پیر کو جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے اپنی پہلی تصویر بھیجی ہے جس کو امریکی صدر جو بائیڈن نے جاری کیا ہے۔

awazurdu

یہ کہکشاں کا ایک جھرمٹ ہے جسے ایس ایم اے سی ایس 0723 کا نام دیا گیا ہے اور یہ 4.6 ارب برس پہلے وجود میں آیا تھا۔ اس کے بارے میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے اہلکار بل نیلسن کا کہنا ہے کہ یہ کائنات کا سب سے گہرا مشاہدہ ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی جانب سے مزید ہائی ریزولوشن تصاویر منگل کو بھیجی جائیں گی۔

awaz

آپ دیکھ رہے ہیں 

بل نیلسن نے کہاکہ ’جناب صدر، جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ اس کائنات کا اتنا سا حصہ ہے جتنا کہ انگلی کی نوک پر رکھا ہوا ریت کا ذرہ جو آپ سے ایک بازو جتنی لمبائی کی دوری پر ہو، جیمز ویب نے ہزاروں کہکشاؤں کو دکھانے کے لیے آسمان کے ایک چھوٹے سے حصے کو بڑا کر کے دکھایا ہے۔ ان چھوٹے نقطوں میں سے ایک پر جو روشنی آپ دیکھ رہے ہیں، 13 ارب سال سے زیادہ عرصے سے سفر کر رہی ہے۔‘ ناسا کے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے تصویر کا ایک بہترین ریزولوشن ورژن پوسٹ کیا جو وائٹ ہاوس میں دکھایا گیا تھا۔

awaz

تصویر میں ستارے نیلے جبکہ سب سے دور کہکشائیں نارنجی رنگ کی ہیں۔ تصویر لینے کے لیے جیمز ویب نے زمین کے قریب کہکشاں کے جھرمٹ ایس ایم اے سی ایس 0723کا انتخاب کیا اور اس کی کشش ثقل کو لینس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مزید دور موجود کہکشاؤں کو بڑا کیا۔ اس عمل کو گریویٹیشنل لینزنگ کہتے ہیں۔

قدرتی دوربین

یونیورسٹی آف شکاگو کے ماہر کاسمولوجسٹ مائیکل گیلڈرز نے ایک انٹرویو میں گریویٹیشنل لینسنگ کے بارے میں کہا کہ اس طرح کے سسٹم کو اکثر ’قدرتی دوربین‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ’ہمیں دور دراز کہکشاؤں کا شفاف نظارہ دکھا سکتا ہے۔‘ بل نیلسن نے بتایا کہ جیمز ویب کی اس تصویر میں سب سے دور کہکشائیں تقریباً 13 ارب سال پرانی ہیں اور اس لیے 13 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہیں، لیکن خلائی دوربین جیمز ویب ماضی میں مزید دور تک دیکھے گی۔

awazurdu

تیرہ ارب سال پیچھے

انہوں نے کہا کہ ’ہم تقریباً ساڑھے 13 ارب سال پیچھے جا رہے ہیں اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ کائنات 13.8 ارب سال پرانی ہے اس لیے ہم تقریباً اس طرف جا رہے ہیں جہاں سے کائنات شروع ہوئی تھی۔‘ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہا کہ ’ہبل ٹیلی سکوپ کی جانشین جیمز ویب خلائی دوربین کی مدد سے ہم خلا میں پہلے سے کہیں زیادہ دور دیکھ سکتے ہیں اور بالکل واضح۔ اس کی مدد سے جو کچھ ہم اپنی کائنات، اپنے نظام شمسی اور ممکنہ طور پر زندگی کے بارے میں جانتے ہیں اس میں اضافہ ہوگا۔‘ صدر جو بائیڈن نے کہا: ’یہ تصاویر دنیا کو یاد دلائیں گی کہ امریکہ بڑے کام کر سکتا ہے۔

awazurdu

 

سب سے بڑا  سائنسی منصوبہ

گزشتہ سال 25 دسمبر کو خلا میں بھیجی گئی دوربین جیمز ویب، جسے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسی منصوبہ قرار دیا گیا تھا، کی مدد سے حاصل ہونے والی پہلی رنگین تصویر جاری کر دی گئی ہے۔ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو ہبل ٹیلی اسکوپ کا جانشین قرار دیا گیا تھا۔

اس تصویر میں جنوبی نصف کرہ کے برج میں کہکشاؤں کا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے جسےایس ایم اے سی اے 0723 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جھرمٹ 4.6 ارب سال کے فاصلے پر موجود ہے لیکن اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کی روشنی نمایاں ہو رہی ہے جو ان سے بھی بہت زیادہ فاصلے پر ہیں۔ اس کی وجہ کشش ثقل کا اثر ہے جو ٹیلی اسکوپ کے زوم لینس کا فلکیاتی مساوی ہے۔

ساڑھے چھ میٹر چوڑے سنہری شیشے اور انتہائی حساس انفراریڈ آلات کی مدد سے ویب ٹیلی اسکوپ کہکشاؤں کی وہ مسخ شدہ شکل، سرخ قوس تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو بگ بینگ کے 600 ملین سال بعد موجود تھی۔ کائنات کی عمر تقریباً 13.8 ارب سال بتائی جاتی ہے لیکن اس فلکیاتی دوربین کی نظر اس سے بھی کہیں دور تک پہنچ رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تصویر کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا مشاہدہ ہو۔

awazurdu

ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق روشنی 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور جو روشنی آپ یہاں دیکھ رہے ہیں وہ 13 ارب سال کی مسافت طے کرکے یہاں تک پہنچی ہے اور ہم اس سے بھی پیچھے جا رہے ہیں کیوںکہ یہ تو صرف پہلی تصویر ہے، دراصل ہم کائنات کے آغاز پر پہنچ رہے ہیں۔

ناسا اور اس کے شراکت دار یورپین اور کنیڈین خلائی ایجنسیز آج بروز منگل مزید رنگین تصاویر جاری کریں گی۔ ویب نے حال ہی میں ویسپ 96 نامی ایک دیو قامت سیارے کے ماحول کا جائزہ لیا ہے جو زمین سے 1000 شمسی سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ پُرجوش سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایک دن یہ ٹیلی اسکوپ کسی ایسے سیارے کا کھوج لگائے گی جس کی آب و ہوا میں زمین جیسی گیسز موجود ہوں۔