مسلمان سے نفرت کیوں؟دیش لوٹنے والے انگریزوں سے کیوں نہیں؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-01-2021
انوپم کھیر پر میں نے طیش میں کمنٹ کیا تھا،پر میں اس پر قائم ہوں۔
انوپم کھیر پر میں نے طیش میں کمنٹ کیا تھا،پر میں اس پر قائم ہوں۔

 

                نصیر الدین شاہ بیشک ہمارے دور کے سب سے عمدہ اداکاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے روپہلے پردے پر اپنا اقبال قائم کیا،مگر وہ کہتے ہیں کہ اب وہ سنیما سے اوب گئے ہیں اور تھیٹر کو اپنا زیادہ وقت دے رہے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ ”جانے بھی دو یارو“ جیسی فلم بنانا، اس وقت کی ضرورت ہے۔ اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم ہی مستقبل ہے۔پر یہ کلاکار صرف سنیما یاکلا سے ہی مطلب نہیں رکھتادیش اور دنیا سے جڑے خاص کر اپنے ملک کو لیکن ان کے سروکار بھی ہیں۔ جسے لے کر شاہ کافی جارح رہتے ہیں۔ حا ل ہی میں ساتھی کلاکار انوپم کھیر کے ان کے ردعمل سے بھی کافی تنازعہ ہوا تھالیکن نصیرالدین شاہ اسے طیش میں کیا گیا صحیح ردعمل قرار دیتے ہیں۔ سنیما، ملک، عالم وبا، آنے والے پروجیکٹس جیسے کئی مسئلوں پر ان سے منجیت ٹھاکر نے بیباک بات چیت کی۔ پیش ہے اس انٹرویوکی آخری قسط۔

                سوال: ایک نصیرالدین شاہ کو ہم نے دیکھا ”کتھا“ جیسی فلم میں۔۔”چشم بددور“ میں؟

                جواب: (بیچ میں روکتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے ہیں)چشم بددور میں، میں ہی نہیں تھا میرا رقیب تھا فاروق شیخ۔ (ہنسی)

                سوال: ”جانے بھی دو یارو“ طنز کی صنف میں اب تک کی سب سے شاندار فلم ہے۔ ری میک کے اس دور میں کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا ری میک ہونا چاہئے؟ ری میک میں آپ کی جگہ کون لے لگا؟

                جواب: میری جگہ کون لے گا؟ میری جگہ تو میں خود رہوں گا۔ پر روی واسوانی اور اوم پوری کی جگہ کون لے گا؟ اور کندن شاہ کی جگہ کون لے گا؟ یہ فلم تو صرف کندن شاہ ہی بنا سکتا تھا۔ اور کندن نے اس کا سیکویل لکھنے کی بڑی کوشش کی۔ ”جانے بھی دو یارو“ جس کرپشن کی بات کر رہی تھی وہ تو بڑے چھوٹے پیمانے پر تھاکہ پولس والا ایک اٹھنی ہم سے لے کر چلا جاتا ہے۔ اس فلم کو بنے ہوئے اب چالیس سال ہوگئے۔ اب تو پولس والا، ہم سے دولاکھ لے گا تب ہمیں تکلیف ہوگی۔ ہم سب کی مالی حالت بہتر ہوگئی ہے۔ اب جو کرپشن اس ملک کو کھائے جارہا ہے، وہ اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ اس کی کہانی میں پورے سیاسی نظام کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اور وہ بڑی اہمیت والی فلم بن جائے گی۔ کندن نے اسکرپٹ لکھی تھی لیکن شروع میں پروڈیوسر نہیں ملا اور جب ملا تو روی کا انتقال ہوگیا، میرا ماننا ہے کہ روی کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ وہ فلم بن ہی نہیں سکتی تھی اگر روی واسوانی اس میں نہیں ہوتا۔حالانکہ آپ نے جو سوال پوچھا، اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں! ہماری آج کی دنیا میں ایسی فلم کی بے حد سخت ضرورت ہے۔”جانے بھی دو یارو“ جب ریلیز ہوئی تو ہمارے اوپر انکم ٹیکس کا کچھ مسئلہ آگیا تھا اور جب ہم انکم ٹیکس کے آفس گئے تو ایک صاحب مجھ کو الگ لے جاکر بولے کہ صاحب ”جانے بھی دویارو“ جیسی ایک فلم آپ انکم ٹیکس کے بارے میں بنائیے(کھل کر ہنستے ہیں)۔میں نے کہا کہ مجھے ڈنڈے نہیں کھانے ہیں، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے۔

NASEER

صیر الدین شاہ اور اوم پوری۔ دو دوست دو اداکار


               سوال:آپ نے تو ایسے ڈائرکٹروں کی فلموں میں بھی کام کیا ہے جن کا بہت بڑا نام نہیں تھا۔ مثلاً ”تین دیواریں“ ایسی فلم تھی تو زمانہ او ٹی ٹی پلیٹ فارم کا آگیا ہے، اس پر فلمیں آرہی ہیں، ان میں کچھ تو کمارہی ہیں اور کچھ فلاپ ہورہی ہیں۔ اوٹی ٹی پلیٹ فارم فلم انڈسٹری کو سہارا دے رہا ہے یا اسے برباد کر رہا ہے؟

                جواب: نہیں برباد بالکل نہیں کر رہا ہے۔ جب ٹی وی مقبول ہواتھا، پورے ملک میں تب کہا جارہا تھا کہ سنیما ہال بند ہوجائیں گے۔ تھیٹر والوں کا کہنا تھا کہ ہمارا ناٹک دیکھنے کون آئے گا۔۔لیکن ٹی وی تھیٹر اور سنیما ہال تینوں چلتے رہے۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارم تو مستقبل ہے اور جو شخص اس سے انکار کر رہا ہے،وہ خود کو بے وقوف بنا رہا ہے۔۔۔ یہ ضرورہے کہ سب کچھ اب ایک اجتماعی تجربہ ہونے کی بجائے ایک انفرادی تجربے میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ چاہے موسیقی سننا ہو، چاہے کتاب پڑھنا ہو یا پھر فلم دیکھنا اور۔۔ یہاں تک کہ ناٹک دیکھنا بھی۔ آج کل آپ یوٹیوب پر ناٹک دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات اور ہے کہ وہ ذائقہ نہیں آتالیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم ڈراموں کو بہت اچھے طریقے سے فلما سکیں گے اور ان کو ٹی وی پر پیش کرنے کے طریقے ڈھونڈپائینگے لیکن کورونا آجائے گا، یہ کس کو معلوم تھا۔۔ اور خدا جانے اگلے پچاس برسوں میں اور کیا کیا چیزیں آئینگی؟ ہمارے اوپر آفتیں آجائیں تو ہم اس سے ہار تو مان نہیں سکتے۔۔۔ ہمیں طریقے ڈھونڈنے ہونگے کہ جو بات ہم کہہ رہے ہیں وہ اس سننے والے تک پہنچے۔ وہ کسی بھی ذریعے سے پہنچے اس سے فرق نہیں پہنچتا۔ میرے خیال سے دھیرے دھیرے عادت پڑ جائے گی۔ میرا تو ماننا ہے کہ اگلے پچیس برسوں میں شاید سنیما گھر بچیں گے ہی نہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے بہت افسوس ہوتا ہے کہ جس رفتار سے وہ خوبصورت عمارتیں جو سپنوں کے محل تھے، جہاں ہم نے اسکول سے بھاگ بھاگ کر کتنی ہی فلمیں دیکھی ہیں (ہنستے ہیں) سب ایک ایک کرکے گرتے جارہے ہیں۔

                سوال: سنگل اسکرین تھیٹر تو لگ بھگ ختم ہی ہوتے جارہے ہیں؟

                جواب: ہاں ختم ہی ہوگئے ہیں اور پتہ نہیں کہ یہ ملٹی اسکرین تھیٹر بھی کب تک جھیل پائیں گے۔ بھئی! ان کا خرچ تو فلمیں چلانے کی بجائے پوپ کارن بیچ کر نکلتا ہے۔

                سوال:آنے والے وقت میں ہم آپ کی کونسی فلمیں دیکھ پائینگے؟

                جواب: دوسال ہوئے میں نے بنگال میں ایک فلم ”دی ہولی کانسپریسی“ کی تھی۔ سمترا چٹرجی صاحب کی وہ آخری فلم تھی۔ یہ انگریزی، بنگلہ اور ہندی میں ہے۔ یہ تشدد پسندوں اور آرتھوڈوکسی اور بلائنڈ سپر اسٹیشن پر گہرا طنز ہے جو ایک امریکی ڈرامے پر منحصرہے۔ میں اور سمترا دا، اس میں دو وکیلوں کا کردار اداکر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دو فلموں میں میں نے چھوٹے چھوٹے کردار کئے ہیں۔ ایک ہے دیواکر بنرجی کی فلم ”فریڈم“ اور دوسری نئے فلم ساز دھرو کی ”مریچھ“وہ تشار کپور نے پروڈیوس کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ویب سیریز ہے ”کون بنے گا شیکھروٹی“۔شکن بترا کی ایک نئی فلم میں بھی ہوں۔۔ لیکن فلموں سے میں ذرا اوب سا گیا ہوں۔ بہت وقت اور محنت لگ جاتی ہے۔۔ اور اکثر وہ ویسی بھی نہیں بنتی جو خواب دیکھا تھا۔ اس لئے فلموں میں اب چھوٹے رول ہی کرنا میں پسند کرتا ہوں جس میں زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ (ہلکے سے مسکراکے) میں اپنی محنت تھیٹر کے لئے بچا کر رکھتا ہوں۔

                سوال:انوپم کھیر صاحب کے ساتھ آپ کی بڑی تلخی ہوگئی تھی، اب سیز فائر ہوا یا نہیں؟

                جواب: (زور سے ہنستے ہوئے) انوپم میرے دوست ہیں۔۔تو وہ جو جملہ میں نے اس کے لئے کہا، وہ مجھے نہیں کہنا چاہئے تھا۔ وہ ذرا تاؤ میں آکر میں کہہ گیا۔ حالانکہ میں اس کو واپس نہیں لے رہاہوں۔ جو میں نے کہا اس پر میں اٹکا ہوا ہوں۔۔ لیکن وہ بات مجھے اس لئے نہیں کہنی چاہئے تھی کیونکہ اس انٹرویوکے دوران میں نے جتنی اور باتیں کیں وہ کسی نے سنی ہی نہیں۔۔ اور وہ زیادہ اہم باتیں تھیں۔ انوپم کے بارے میں،میں طیش میں ایک جملہ بول گیا جس پر طوفان اٹھ کھڑ اہوا مجھے اس بات پر دکھ ہوا کہ اور جو زیادہ اہم باتیں میں نے کہی تھیں ان پر کسی نے غور نہیں کیا۔

                سوال: آئیڈیا آف انڈیا کی بات کو لے کر متاثر ہوتے ہیں آپ؟

                جواب:یہی تو ہماری یونیکنیس تھی۔ ہماری مہانتا تھی۔ ہم نے ہر سولائزیشن کا آؤبھگت کیا۔ ہرایک سولائزیشن کو گلے سے لگایا۔ چاہے وہ پرتگالی ہو، ازبیکی ہو،انگریز ہوں یا فرانسیسی۔ سب لوگ آئے تھے یہاں۔ فرق یہ ہے کہ مسلمانوں کو حملہ آور کہا جاتا ہے۔ میں محمود غزنوی جیسے منحوسوں کو جسٹیفائی نہیں کرتا مگر جن مغلوں کو حملہ آور کہا جاتا ہے وہ لوٹنے نہیں بسنے آئے تھے۔ اگر اتنی نفرت ہم مسلمانوں سے کرسکتے ہیں تو اس سے ہزار گنا نفرت، ہمیں انگریزوں سے کرنی چاہئے۔ لوٹا کس نے ہمارے ملک کو؟ انگریزوں نے۔۔ جو مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم پردیسی ہو جن کو ہم نے پناہ دی ہے۔۔ تو انگریزوں کے بارے میں کیا کہنا ہے آپ کا؟۔۔ ذرا تاریخ آپ پڑھیں کہ سولہویں صدی سے اس ملک سے انگریز کیا کیا

 لوٹ کر لے گئے۔۔؟۔۔ اور ایک کمبخت نادر شاہ کے علاوہ مسلمان کیا لوٹ کر لے گئے؟ میری پانچ پشتیں اس زمین میں دفن ہیں۔ تین سو سال سے میرا خاندان یہاں پر بسا ہوا ہے۔ میرے خاندان کے کئی لوگ ہندوستان کی فوج اور پولس میں شامل رہے ہیں اگر یہ سب چیزیں مجھے ہندوستانی نہیں بناتیں تو مجھے نہیں معلوم کہ پھر کونسی چیز بناسکتی ہے۔ تو آپ کی بات بالکل صحیح ہے کہ یہی ہماری طاقت ہے۔ اور اگر اس کو توڑ دیا جائے تو

بچے گا کیا ہمارے پاس۔ افسوس یہی ہے کہ کوششیں ہورہی ہیں اور لیکن اس کو بچانے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔