ظہیب قریشی کوانجینرینگ سروس میں ملی چھٹی رینک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-04-2021
ظہیب قریشی
ظہیب قریشی

 

 

ظہیب قریشی ،ان مسلمان لڑکوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے حکومت کی مسلم دشمنی کا رونا رونے کے بجائے محنت کی۔ نتیجہ کے طور پرانھیں کامیابی ملی اور ایسی سروس کے لئے ان کا انتخاب ہواجس کے لئے چنا جانا مشکل مانا جاتاہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سیٹیں کم ہوتی ہیں اور امیدوار لاکھوں میں۔

ظہیب کوآئی ای ایس میں ملی ہےچھٹی رینک۔ ہندوستان کی انجینئرنگ کی سب سے بڑی سروس آئی ای ایس میں کسی کو جگہ ملنا ہی بڑی بات ہوتی ہے اور ظہیب قریشی تو لاکھوں امیداروں میں چھٹی رینک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ظہیب قریشی کسی امیرکبیر گھرانے سے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے گھر کے بزرگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ باجود اس انھوں نے علمی میدان میں کامیابی پائی ہے۔

ان کا خاندان ضلع مظفرنگر کا رہنے والاہے اور ان کے والد کباڑ کے کاروبار سے جڑے ہیں۔ حالانکہ ان کا خاندانی بزنس گوشت کا ہے مگر اوران کے تمام رشتہ دار اور بیشترپڑوسی اسی بزنس سے جڑے ہیں مگر ظہیب کےوالد نے گوشت کے بجائے کباڑ کا کام کیا۔ کباڑ کاکاروبار بھی بہت عزت والا کام نہیں مانا جاتا ہے مگرظہیب کی کامیابی نے ان کے خاندان کو بڑی عزت دلادی ہے۔

ان کے پڑوسی اور علاقے کے لوگ انھیں رشک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔کھالاپار علاقے کے کونسلر عبدالستارکہتے ہیں کہ ’’کامیابی تو اسے کہتے ہیں، لڑکا ستارا بن گیا ہے۔

وہ خاموشی سے پڑھتا رہا اور ایک ریزلٹ نے شور مچا دیا۔‘‘ ظہیب نے جس آئی ای ایس کے امتحان میں چھٹی رینک حاصل کی ہے، اس میں تقریباً 10 لاکھ امتحان دہندگان نے شرکت کی تھی اورصرف40 امیدوارہی منتخب ہوئے،جن میں ایک ظہیب بھی ہیں۔

ظہیب کہتے ہیں کہ ’’مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ میرے اندر کوئی سائنٹفک ٹمپرامنٹ ہے اور اب اس کا پورا استعمال وہ ملک کو مضبوط بنانے میں کریں گے۔‘‘ ظہیب کو یہ کامیابی پہلی ہی کوشش میں ملی ہے۔ وہ ہندی میڈیم کے طالب علم رہے ہیں، لیکن کافی محنت کر کے انھوں نے انگریزی میڈیم کی راہ اختیار کی۔ ظہیب کہتے ہیں کہ انھوں نے خود سے ہی پورا پلان بنایا۔

وہ جانتے تھے کہ اس امتحان میں 8 سے 10 لاکھ لوگ بیٹھتے ہیں اور صرف 41 سیٹ (میکینیکل) ہے، تو انھوں نے ریسرچ کیا کہ تمام ہارڈ ورک کے بعد بھی امتحان دہندگان کو کامیابی کیوں نہیں مل پاتی۔

اس سے ان کی سمجھ میں آیا کہ ان کے ساتھی مشکل سوالوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سبجیکٹ ہے ’میکرونکس‘ جو کافی مشکلیں پیدا کرتا ہے۔ میں نے سب سے زیادہ مہارت میکرونکس میں ہی حاصل کی۔ میں نے اسٹریٹجی بنائی کہ سب سے مشکل کو سب سے پہلے حل کرو۔ اس سے مجھے کئی فائدے ہوئے۔

ظہیب کی امی شاہین کہتی ہیں کہ ’’میں نے اللہ سے بہت دعائیں مانگی ہے۔ ریزلٹ والے دن یہ بہت مایوس تھا۔ خاموش بیٹھا ہوا فون دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے فون چھین لیا، اور پھر تبھی یہ چیخا کہ امی میری آل انڈیا چھٹی رینک آئی ہے۔ میں رو پڑی

۔ اس دن سے ہماری دنیا بدل گئی۔ اب ہم اسپیشل ہو گئے ہیں۔ ظہیب قریشی کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے رہاہے۔انھوں نےانجینئرنگ کی پڑھائی جامعہ سے ہی کی ہے۔