کورونا متاثرہ میت کوغسل دینے کے اسلامی احکام کیاہیں؟ کیا کہتے ہیں علماء ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-05-2021
تمثیلی تصویر
تمثیلی تصویر

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

اسلامی فقہ کے مطابق عام حالات میں مسلمان میت کو غسل دینافرض کفایہ ہے۔ اگر کسی ایک نے بھی غسل دیدیاتو یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے اور کسی نے بھی نہ دیا تو تمام مسلمان گنہگار ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کروناکی شکار میت کے ساتھ کیا کیا جائے؟

غسل دینے کی صورت میں وائرس کے دوسروں تک پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسپتالوں کی جانب سے میت کوایک بڑے بیگ میں پیک کردیاجاتاہےاوراندروباہروائرس کو مارنے والی دوائیں بھی ڈال دی جاتی ہیں تاکہ اسے اٹھانے اوردفن کرنے والے متاثر نہ ہوں۔حالانکہ اٹھانے اور دفن کرنے والوں کی لئے بھی حفاظتی کٹ کا استعمال ضروری ہوتاہے۔ مسئلہ تب زیادہ سنگین ہوجاتاہے جب کسی کورونا مریض کا گھر میں ہی انتقال ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ کسی اسپتال جیسی احتیاطی تدابیرگھرمیں ممکن نہیں ہوتیں۔ بہرحال یہ مسئلہ علمائ دین کےدرمیان موضوع بحث بھی ہے کی ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟کیا غسل میت کی فرضیت ساقط ہوجائےگی۔

ڈاکٹرکیاکہتے ہیں؟

ڈاکٹرابصاراحمد(ایم بی بی ایس،ایم ڈی)

مرکزی حکومت کی گائیڈلائن کے مطابق کورونامتاثرہ میت کو نہلانا ممنوع ہے۔ اس گائڈلائن کو خود وزیرصحت ڈاکٹرہرش وردھن نے جاری کیاتھا۔یہی سبب ہے کہ اسپتال میں مرنے والوں کونہلانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے مگر گھروں میں مرنے والوں کو لوگ نہلارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کوروناپھیل سکتاہے؟ اس سلسلے میں آوازدی وائس سے گتفتگوکرتے ہوئے

ڈاکٹر ابصار احمد(ایم ڈی) نے کہاکہ اب تک ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے جس سے پتہ چلے کہ نہلانے والے کورونا سے متاثرہوجاتے ہیں مگر احتیاط لازمی ہے کیونکہ یہ نئی بیماری ہے اور اس کے بارے میں جانکاریاں کم ہیں۔

جب کہ ڈاکٹرکمال احمدکا کہنا تھاکہ یہ مرض تھوک یاسانس سے پھیلتاہے جب کہ مرنے کے بعد سانس بند ہوجاتی ہے۔تھوک اورخون منجمدہوجاتاہے اور وائرس جسم کے اندربندہوجاتے ہیں،ایسے میں وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ نہیں رہتا۔ پی پی کٹ اور دستانہ کے ساتھ محتاط طریقے سے نہلایاجاسکتاہے۔اگرمیت کے جسم سے کوئی سیال مادہ نکل کر بہہ رہاہے تومزیداحتیاط کی ضرورت ہے۔

مفتی مکرم احمدکیافرماتے ہیں؟

مفتی مکرم احمد

آوازدی وائس نے جب فتح پوری مسجد،دہلی کے امام مفتی مکرم احمد سے پوچھا کہ جولوگ گھروں میں کورونا کے سبب مر رہے ہیں،انھیں غسل دیاجائے یا نہیں ؟ تو ان کا جواب تھا کہ غسل دیاجائے مگراحتیاطی تدابیر کے ساتھ۔ پی پی کٹ اور دستانے وغیرہ کے ساتھ غسل دیا جائے اور کم وقت میں غسل دیا جائے، کم سے کم لوگ لگیں اورمیت پرپانی بہادیں۔

زندوں کی جان بچانازیادہ ضروری

جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیزکے استاد،متعددکتابوں کے مصنف اور اسلامی احکام کے ماہر ڈاکٹرمفتی محمد مشتاق تُجاوری نے آوازدی وائس سےکہا کہ اگرچہ مردے کو غسل دینا فرض کفایہ ہے لیکن بعض صورتوں میں پہلے بھی غسل نہیں دیاجاتاتھا۔ ایساہی معاملہ کورونا متاثرہ میت کے ساتھ بھی ہے۔ اگرکوئی ایسی صورت ہوکہ غسل دیاجاسکے اور وائرس کے پھییلائوسے بچابھی جاسکے توضرورغسل دیا جائے ورنہ تیمم کرایاجائے اور یہ بھی ممکن نہ ہوتوبغیرغسل کے ہی احترام کے ساتھ جنازہ پڑھ کردفن کریں۔انھوں نے مزیدکہا کہ

 

کورونامتاثرہ کی موت گھر میں ہوئی ہویااسپتال میں،تجہیزوتکفین وغیرہ میں احتیاط لازمی ہے کیونکہ زندہ انسانوں کی جان کو محفوظ رکھنافرض ہے۔اسے خطرے میں ڈال کرغسل وتکفین نہیں کیاجاسکتا۔

شرعیہ کونسل کی وضاحت

سابق امیر جماعت اسلامی ہند و صدر شرعیہ کونسل مولانا جلال الدین عمری 

اس سلسلے میں شرعیہ کونسل ،جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مذکورہ مسائل کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے لئے ایک نشست منعقد کی گئی جس میں سابق امیر جماعت و صدر شرعیہ کونسل مولانا جلال الدین عمری اورڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی سکریٹری شرعیہ کونسل نے شرکت کی اور انتہائی غورو فکر کرنے کے بعد شرعی احکام کی وضاحت کی۔اس وضاحت میں کہا گیا کہ

’’میت کا غسل عام حالات میں واجب ہے لیکن اگر ڈاکٹر کورونا میں مرنے والے کو غسل دینے سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا شدید خطرہ ظاہر کررہے ہوں اور اسے تیمم کرانا بھی دشوار ہوتو یہ واجب ساقط ہوجائے گا۔ یہی حکم کفن پہنانے کا ہے، اگر ڈاکٹر میت کے کپڑے اتارنے اور کفن پہنانے سے وائرس پھیلنے کا قوی اندیشہ ظاہر کررہے ہوں تو اسے جس پلاسٹک بیگ میں اسپتال سے لایا جاتاہے وہی کافی ہے۔

میت پر نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، کورونا کی میت کی نماز جنازہ بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ پڑھی جائے گی۔اگر کسی کی نماز جنازہ تدفین کے وقت نہ پڑھی جاسکے تو تدفین کے بعد جب تک نعش میں تغیر نہ ہونے کا اندازہ ہو، قبر کے پاس پڑھی جاسکتی ہے، فقہ شافعی میں غائبانہ نماز جنازہ کو بھی جائز کہا گیا ہے۔‘‘

ڈاکٹررضی الاسلام ندوی

شرعیہ کونسل نے مزیدوضاحت کی ہے کہ اگر ڈاکٹر میّت کے کپڑے اتارنے اور کفن پہنانے سے وائرس پھیلنے کا قوی اندیشہ ظاہر کر رہے ہوں تو اسے جس پلاسٹک بیگ میں اسپتال سے لایا جاتا ہے وہی کافی ہے۔واضح ہوکہ مولاناجلال الدین عمری اورڈاکٹررضی الاسلام ندوی،درجنوں اسلامی کتب کے مصنف ہیں ۔

دیوبندکافتویٰ

اس سلسلے میں ایک سوال مفتی حبیب الرحمن، صدر مفتی دار العلوم دیوبندکے سامنے پیش کیاگیا جس کا انھوں نے تفصیلی جواب دیا۔اس جواب میں ان کا کہناتھا کہ اگرکسی بھی طرح سے غسل ممکن ہوتوغسل دیاجائے،اگر غسل کی کوئی صورت نہ بن سکے تو مجبوری میں میت کو تیمم کرادیا جائے، مجبوری میں یہ تیمم ، غسل کا بدل ہوجائے گا۔اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتومجبوری میں غسل اور تیمم کا حکم ساقط ہوجائے گا اور اسی حالت میں مرحوم کی نماز جنازہ پڑھ کر تدفین کردی جائے گی۔ انھوں نے فتوے کے اخیر میں لکھا کہ ’’ عذر ومجبوری کی وجہ سے طہارت کا حکم سرے سے ساقط ہوجائے گا اور اسی حالت میں نماز جنازہ پڑھ کر تدفین کردی جائے گی۔‘‘

امارت شرعیہ کا کہتاہے؟

امارت شرعیہ ،پٹنہ نے اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ

’’کوروناکے مسلم میت پر غسل کے لیے پلاسٹک کے اوپر پانی بہایا جائے گا، اوراگرانتظامیہ کی سختی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتو جس طرح عام مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے بغیر کفن اورغسل اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی جائے، اور جماعت میں صرف چند لوگ شرکت کریں،خیال رہے کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔‘‘

مذکورہ فتوے پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔ مولانامحمد ولی رحمانی (مرحوم)امیر شریعت بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ ،مفتی سہیل احمد قاسمی،صدر مفتی امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ،مولانامحمد سعید الرحمٰن قاسمی مفتی امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ۔

مفتی نذیراحمدکیافرماتے ہیں؟

مفتی نذیراحمدقاسمی

کشمیرکے مفتی نذیراحمد قاسمی(صدرمفتی دارالافتا، مدرسہ رحیمیہ، بانڈی پورہ) کا کہناہے کہ کسی صورت میں غسل ممکن ہوتوغسل کرایاجائے،خواہ دستانہ پہن کرکرایاجائے ممکن نہ ہوتوتیمم کرایاجائے۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ ’’اگر ڈاکٹروں نے میت کا چہر ہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں دی تو پھراس پلاسٹک کور کے اوپر سے تیمم کرایا جائے‘‘(جس میں میت پیک ہے)۔وہ غسل کے پانی میں جراثیم کش کیمیکل کے استعمال کی بات بھی کرتے ہیں۔