کیا ہیں طبی اخلاقیات ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-03-2022
کیا ہیں طبی اخلاقیات ؟
کیا ہیں طبی اخلاقیات ؟

 

 

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،نئی دہلی

 حکیم عبد الباری نے فون پر اطلاع دی : " ہم اپنے شعبے (شعبۂ کلیات ، جامعہ ہمدرد) کی جانب سے آپ کا ایک توسیعی لیکچر رکھنا چاہتے ہیں۔"

اس سے پہلے کہ میں کوئی عذر پیش کرتا اور اپنی مصروفیات اور اسفار کا تذکرہ کرتا ، انھوں نے فیصلہ کن انداز میں فرمایا : " آپ کا عنوان 'طبی اخلاقیات' ہوگا ، 28 مارچ 2022 ، دوپہر ڈھائی بجے سے ساڑھے تین بجے تک لیکچر ہوگا۔

پروگرام کی صدارت اسکول آف یونانی میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ، جامعہ ہمدرد کے ڈین پروفیسر ایس عارف زیدی فرمائیں گے۔ پروگرام میں شعبۂ کلیات اور دیگر شعبوں کے اساتذہ رہیں گے ، البتہ لیکچر کو آن لائن بھی دکھایا جائے گا، جس سے دوسرے لوگ بھی استفادہ کرسکیں گے۔" جب اتنی تفصیل سے اطلاع دی جا رہی ہو تو میرے لیے کوئی عذر پیش کرنے کا موقع نہیں تھا۔عذر کرتا بھی تو وہ مسموع نہ ہوتا۔

 حکیم عبد الباری نے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ، اعظم گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اجمل خاں طبیہ کالج ، مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ سے طب کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میرا داخلہ اجمل خاں طبیہ کالج میں 1983 میں ہوا تو یہ ان کی فراغت کا سال تھا۔اس کے بعد وہ ہندوستان کے مایہ ناز طبیب اور علم پرور شخصیت حکیم عبد الحمید کے ادارہ' انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈ میڈیکل ریسرچ نئی دہلی سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں جب اس انسٹی ٹیوٹ کو جامعہ ہمدرد کی فیکلٹی آف یونانی میڈیسن میں شامل کردیا گیا تو وہ کالج کے اسٹاف میں شامل ہوگئے۔اس فیکلٹی کو کچھ عرصے کے بعد اسکول آف یونانی میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (SUMER) کا نام دے دیا گیا۔

موصوف برابر علم طب کی خدمت انجام دے رہے ہیں _ ان دنوں شعبۂ کلیات کی چیرمین شپ ان کے ذمے ہے۔ انھوں نے طبع زاد کتابیں بھی لکھی ہیں اور دیگر زبانوں سے ترجمہ بھی کیا ہے۔

طب میں ان کے انگریزی مضامین کا مجموعہ Salient features of History of Unani Medicine کافی دنوں پہلے شائع ہوا ہے۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد کتابوں کا ترجمہ عربی اور فارسی سے اردو میں کیا ہے۔عربی سے ترجمہ کردہ کتابوں میں رسالہ فی اطعمۃ المرضی ، التلويح الی أسرار التنقیح ، الفتح فی التداوی ، طبقات الأطباء و الحکماء ، قرابادین مارستانی اور فارسی سے ترجمہ کردہ کتابوں میں رسالہ بیخ چینی ، خلاصہ قوانین علاج ، تحفۂ صفویہ ، مطب حکیم علوی خاں ، رسالۂ افیون ، رسالۂ دواء الأطفال ، رسالۂ بدل ادویہ اور قرابادین معصومی قابلِ ذکر ہیں۔

انھوں نے طلبۂ طب کو بنیادی عربی زبان سکھانے کے لیے 'آسان عربی قواعد' کے نام سے لکھی ہے۔ تاریخ طب پر ان کے مضامین کا مجموعہ 'نقوشِ تاریخِ طب' کے نام سے شائع ہوا ہے۔ میرا لیکچر درج ذیل نکات پر مشتمل تھا:

 (1) پیشۂ طب میں اخلاقیات کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس کی گئی ہے _ کورونا کے درمیان اطباء اور طبی عملہ کی اخلاق سوز حرکتوں نے اس کی ضرورت اور بھی بڑھا دی ہے۔

(2) ابو الطب بقراط نے علم طب کو عام کیا ، لیکن اس کا خیال تھا کہ نا اہل لوگوں سے اس پیشے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان سے حلف لیا جائے اور انہیں اخلاقیات کا پابند کیا جائے _ اس کے لیے اس نے ایک عہد نامہ تیار کیا، جو 'معاہدۂ بقراط'(Hippocratic Oath) کے نام سے مشہور ہوا۔

 (3) طبی اخلاقیات کے موضوع پر اسلامی عہد میں بھی کام ہوا ہے۔ ابتدائی کتابوں میں یوحنا بن ماسویہ کی 'محنۃ الأطباء' اور حنین بن اسحاق کی' امتحان الأطباء' کے نام ملتے ہیں ، لیکن وہ دست یاب نہیں ، البتہ رازی کی'اخلاق الطبیب' اور اسحاق الرھاوی کی' ادب الطبیب' طبع ہوگئی ہیں۔

(4) طبی اخلاقیات کی کتابوں عموماً تین موضوعات زیرِ بحث آئے ہیں : اطباء میں انفرادی طور پر کیا اوصاف ہوں؟ اطباء کا باہم رویّہ کیا ہو؟ اطباء کا مریضوں سے برتاؤ کیسا ہو؟

(5) طبی اخلاقیات کے تحت طبیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عام حالات میں مریض کے رازوں کی حفاظت کرے اور کسی دوسرے کو ان کی خبر نہ دے۔ وہ مریض کو زہر یا کوئی ضرر پہنچانے والی دوا نہ دے۔ وہ مانعِ حمل کوئی دوا دے نہ اسقاطِ حمل کی کوشش کرے۔ مرد عورت کا علاج کرسکتا ہے اور عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے ، البتہ اس صورت میں تخلیہ سے بچنا چاہیے ، طبیب یا طبیبہ کو اپنے ساتھ کسی معاون کو ضرور رکھنا چاہیے۔

طبیب کو بے غرض اور مریض کے لیے مخلص ہونا چاہیے۔علاج سے قبل جتنی طبی جانچیں ضروری ہوں بس اتنی ہی کرائے ، محض بِل بڑھانے کے لیے بلا ضرورت بہت زیادہ ٹیسٹ نہ کرائے۔ اسی طرح جتنی دوائیں ضروری ہوں اتنی ہی لکھے۔

سستی دواؤں سے علاج ہوسکتا ہو تو خواہ مخواہ مہنگی دوائیں تجویز نہ کرے۔ دواؤں سے شفا ممکن ہو تو بلا ضرورت آپریشن تجویز نہ کرے۔ طبیب کو خوش شکل (Handsome) اور خوش اطوار ہونا چاہیے۔ وہ مریض سے مسکراکر بات کرے ، اس کے احوال دریافت کرے اور اس کی بیماری چاہے جتنی سنگین ہو ، لیکن اسے شفایاب ہونے کی امید دلائے، وغیرہ۔

(6) طبی اخلاقیات کے موضوع پر حکیم محمد سعید کی 'اخلاقیاتِ طبیب اور علامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی'طبابت کے اخلاق اسلام کی نظر میں ' قابلِ ذکر ہیں۔

حکیم عبد الحمید کا ایک رسالہ انگریزی میں Notes on Ethical Basis of Medicine کے نام سے ہے۔ حکیم سید شہاب الحق اور حکیم شہر قدیر کی کتابوں (دونوں کا نام تاریخِ طب و اخلاقیات) میں بھی اخلاقیات کے مباحث ملتے ہیں۔

(7) اس موضوع پر دینی نقطۂ نظر سے مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب 'صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات' اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ایک سمینار کا مجموعۂ مقالات بہ عنوان 'طبی اخلاقیات' اہم ہیں۔

(8)طبی اخلاقیات پر روایتی مباحث کے علاوہ جدید موضوعات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ مثلاً محرّمات سے علاج کی کہاں تک گنجائش ہے؟اعضاء کی پیوندکاری کے کیا ضوابط ہیں؟ کن صورتوں میں منعِ حمل اور اسقاطِ حمل کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ مصنوعی طریقہ ہائے تولید کی اجازت کن شرائط کے ساتھ دی جاسکتی ہے؟ کیا قتل بہ جذبۂ رحم (Euthanasia) جائز ہے ؟ وغیرہ۔

(9) اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے نئے مسائل پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔اس کے تحت ایک درجن سے زیادہ طبی موضوعات پر قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں۔ یہ قراردادیں نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی نامی کتاب میں شامل ہیں۔

(10) بعض نئے طبی مسائل میری کتاب ' اکیسویں صدی کے سماجی مسائل اور اسلام' میں زیرِ بحث آئے ہیں۔ لیکچر کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مرد اور خواتین اساتذہ نے موضوع میں بہت دل چسپی لی اور ڈسکشن میں حصہ لیا۔آخر میں ڈین صاحب نے اپنی صدارتی گفتگو میں موضوع کی اہمیت اور طب میں اخلاقیات کو فروغ دینے کی ضرورت بیان کی اور میرے پریزینٹیشن کے بارے میں تحسین کلمات کا اظہار کیا۔

 حکیم عبد الباری نے پروگرام کے انعقاد کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔انھوں نے ابتدا میں میرا تفصیل سے تعارف کرایا اور میرے طبی کاموں کا تذکرہ کیا۔ ڈین صاحب کے ذریعے بُکے پیش کروایا۔ شال اوڑھوائی۔ سرٹیفکٹ اور مومینٹو پیش کروایا۔

انھوں نے تمام شرکاء کے لیے بھی سرٹیفکٹ تیار کروائے تھے۔ اپنی نئی کتاب 'تحقیق و ترجمہ قرابادینِ معصومی' کا ایک نسخہ تحفۃً دیا۔ آخر میں گروپ فوٹو سیشن بھی کروایا ، جس میں شعبۂ کلیات کے اساتذہ اور دیگر شعبوں کے اساتذہ کے ساتھ الگ الگ تصویر کشی کی گئی۔

پروگرام کے انعقاد میں شعبۂ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سحر سلیم نے سرگرمی سے حصہ لیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجرِ جزیل عطا فرمائے، آمین۔

 میرے متواضع طبی کاموں پر قدر افزائی دراصل ان حضرات کی وسعتِ قلبی اور عظمت پر دلالت کرتی ہے جو علمی کاموں پر ، خواہ کوئی بھی کرے ، خوش ہوتے ہیں اور کھلے دل کے ساتھ اس کی مدح سرائی کرتے ہیں۔