کولکتہ : عالیہ یونیورسٹی فنڈ کی کمی اور بد انتظامی کا شکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-08-2021
کولکتہ کی عالیہ یونیورسٹی
کولکتہ کی عالیہ یونیورسٹی

 

 

   نوراللہ جاوید / کولکتہ 

دراصل 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مغربی بنگال کے مسلمانو ں کی پسماندگی کی بھیانک تصویر سامنے آنے کے بعد ریاست میں تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے والی بائیں محاذ حکومت نے مسلمانوں کی ناراضگی کو ختم کرنے اورنا انصافیوں کے ازالے کےلئے2007میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگ کے ذریعہ 1780میں قائم عالیہ مدرسہ (کلکتہ محمڈن کالج)کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ 

اس کےلئے2008میں اسمبلی سے بل پاس کیا گیا۔اور نئی یونیورسٹی کو وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے تحت کرتے ہوئے اسلامی تہذیب و تمدن کے پس منظر کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ۔

 یونیورسٹی کے قیام کو 15سال مکمل ہوچکے ہیں ۔ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس پر بحث کی جاتی کہ بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے میں ’’عالیہ یونیورسٹی‘‘ اپنا کردار ادا کرنے میں کس قدر کامیاب ہے؟

مگراس پر بحث کیا ہوتی عالیہ یونیورسٹی اس وقت اپنے وجود کو لے کر ہی موضوع بحث ہے۔صورت حا ل اس قدر خراب ہے یونیورسٹی گزشتہ دو سالوں سے تعلیمی و مالی بحران کا شکار ہے۔ونڈروں کے کروڑ روپے بقایا ہیں جس کی ادائیگی سے یونیورسٹی قاصر ہے، کئی مہینوں سےگیسٹ فیکلٹی اورسیکورٹی گارڈ اور دیگر یومیہ عملے کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔

 ایک سال قبل 20مئی کو طوفان کے دوران عالیہ یونیورسٹی کے پارک سرکس کیمپس کو شدید نقصان پہنچا تھا۔انٹر نیٹ کنکشن منقطع ہوگیا تھا مگر 16مہینے گزر جانے کے باوجودوہاں انٹر نیٹ بحال نہیں ہوئے ہیں ۔اسی طرح یونیورسٹی کے مختلف فیکلٹی میں آنے والے قومی و بین الاقوامی جرنل(میگزین) فنڈ کی قلت کی وجہ سے بند ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ صورت حال کیوں ہوئی ہے؟ عالیہ یونیورسٹی کو مالی بحران کا سامنا کیوں ہے؟

ممتا بنرجی کا زبانی وعدہ

 تیسری مرتبہ اقتدارمیں آنے کے بعد جب ممتا بنرجی کی حکومت اپنے پہلے بجٹ میں اقلیتوں کےلئے مخصوص فنڈ میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئےعالیہ یونیورسٹی کےلئے 125کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا تو اس وقت اردو اخبارات اور دیگر میڈیا میں اس پر خوب واہ واہی ہوئی تھی-

مگر مالی سال 2021-22کا پہلا سہ ماہی گزرجانے کے باوجود یونیورسٹی کی درخواست کے باوجود پہلی سہ ماہی کا فنڈ 30کروڑ روپے اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔2020-21کے مالی سال میں عالیہ یونیورسٹی کےلئے 115کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔مگر یومیہ اخراجات کےعلاوہ دیگر گرانٹ کے طور پر محض 10کروڑ روپے جاری کئے گئے۔

ظاہر ہے یہ رقم کافی کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دوسالوں میں یونیورسٹی میں تعمیراتی اور انفراسٹکچر کے کام ٹھپ ہوگئے ہیں ۔

awazurdu

مدرسہ عالیہ کی پرانی تاریخی عمارت 

اساتذہ یونین کا خط

پچھلے ہفتے ۲۷اگست کو عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ یونین کا پانچ صفحاتی خط جو سامنے آیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ وزارت اقلیتی امورو مدرسہ تعلیم اوریونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان جاری سرد جنگ کی قیمت یونیورسٹی کو ادا کرنی پڑرہی ہے۔ محکمہ اقلیتی امور کے بیوروکریٹ یونیورسٹی پراپنا دبدبہ بنانا چاہتے ہیں کہ جب کہ وائس چانسلر اپنے طور پر یونیورسٹی چلانے پر بضد ہیں ۔

اس جنگ میں محکمہ اقلیتی امور نے عالیہ کے فنڈ کو ہی روک دیا ہے ۔دراصل عالیہ یونیورسٹی اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی تنازع کا شکار ہے۔مرکز سیاست ہے۔ہر کوئی اس بہتی کنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔ 

سرکاری گائڈ لائن پر عمل نہ ہوسکا

بنگال کی دو درجن سے زاید یونیورسٹیاں ریاست کے اعلیٰ تعلیم محکمہ کے تحت چلتی ہیں چوں کہ عالیہ یونیورسٹی پہلے عالیہ مدرسہ تھا اور وہ وزارت اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے تحت تھا۔ ریاست کی یونیورسٹیوں میں مسلم طلبا کی نمائندگی محض 3فیصد تھی جب کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 30فیصد کے قریب ہے۔

 اس نئی یونیورسٹی کو وزارت اقلیتی امور کے تحت رکھا گیا تھا تاکہ یونیورسٹی کا اقلیتی کردار باقی رہے۔مگر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور وزارت اعلیٰ تعلیم کے گائڈ لائن کے درمیان مطابقت رکھنے میں محکمہ اقلیتی امور مکمل طور پر ناکام رہا۔

awaz

سینکڑوں بچوں کا مستقبل داو پر لگ گیا ہے 

 بد عنوانیوں کے الزامات

 گزشتہ پندرہ سالوں میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام ہوئے ، راجر ہاٹ اور پارک سرکس کیمپس کی تعمیرہوئی، انفراسٹکچر کےلئے بڑے پیمانے پرسامانوں کی خریداری ہوئی۔اس کے علاوہ 2014میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے نوجوانوں میں پیشہ وارانہ تربیت کےلئے بڑے پیمانے پر ’’اسکیل ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا ۔

 اس کے تحت ریاستی حکومت کے اشتراک سے یہ پروگرام چلنے والے تھے۔عالیہ یونیورسٹی کو بھی ریاست کے مسلم اکثریتی علاقے میں ووکیشنل ٹریننگ کی ذمہ داری دی گئی تھی ۔مگر بعد میں عالیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرابو طالب خان پر یہ الزام عاید کئے گئے کہ تعمیراتی کاموں اور انفراسٹکچر کے سامانوں کی خریداری میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی ہے ۔

 اس کے ساتھ ہی ووکیشنل ٹریننگ پروگرام میں بھی بڑے پیمانے پر گھوٹالے ہوئے ہیں۔جب اس معاملے میں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، طلبا نے ہفتوں احتجاج کیا تو ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی۔پہلے اس کمیٹی نے سست روی سے کام کیا اور بعد میں جب رپورٹ آئی تو اس کو منظر عام پر لانے میں تاخیر کی گئی ۔

 یہاں تک کہ ابو طالب خان کی مدت ختم ہوگئی اوران کی جگہ 2018میں نئے وائس چانسلر پروفیسر محمد علی آگئے۔اس کے بعد اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو عام کیا گیا جس میں کئی اہم بدعنوانیوں کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ اس پر بھی مہر ثبت کیا گیا ہے کہ ووکیشنل ٹریننگ کے نام پر ایسے ایسے اداروں کو ذمہ داری دی گئی ہیں جن کا وجود تھا ہی نہیں ۔ ان اداروں کے انتخاب کے طریقے کار بھی سوال اٹھائے گئے۔ 

چارج ممتا بنرجی کے پاس تھا

گزشتہ دس سالوں سے وزارت اقلیتی امورو مدرسہ تعلیم کا چارج خود وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کے پاس تھا۔گویا ممتا بنرجی کی ناک کے نیچے عالیہ یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر گھپلے ہوتے رہے اور اس کی شدبد وزارت اقلیتی امور کو نہیں ہوئی۔

الزام ہے کہ اساتذہ ودیگر عملہ کی تقرری میں بھی متعینہ اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ۔پانی حد سے اوپر گزرجانے کے بعداب وزارت اقلیتی امور نے اس پورے معاملے کی جانچ کےلئے کمیٹی قائم کی ہے۔مگر عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی یونین نے اس جانچ کمیٹی پر ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے۔


سچسں

تعلیم سے کھیل تک ۔ایک نام ہے مگر

مفادات کا ٹکراو

عالیہ یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر اپنے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ دراصل یہ مفادات کاٹکرائو ہے، محکمہ اقلیتی امور کے بیورو کریٹ جن کے پاس کسی بھی تعلیمی ادارے کو چلانے کا تجربہ نہیں ہے وہ یونیورسٹی کے نظام پر حاوی ہونا چاہتے ہیں ۔

 جب کہ انتظامیہ اپنے طور پر یونیورسٹی انتظامیہ اپنے طور پر چلانے کی کوشش کررہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ووکیشنل ٹریننگ کےلئے ہوئے مبینہ گھوٹالہ تو سابق وائس چانسلرکے دور میں ہوئے اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ دسمبر 2016میں آگئی تھی پانچ سالوں تک وزارت اقلیتی امور کے افسران کہاں تھے۔

 اس وقت ان کا مواخذہ کیوں نہیں کیا گیا۔وہ کہتے ہیں اس میں صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہی ملوث نہیں ہے بلکہ محکمہ اقلیتی امور کے کئی ایسے افسران بھی ہیں جنہوں نے اپنے فرضی اداروں کو بھی ووکیشنل ٹرینگ پروگرام کےلئے فنڈ جاری کرائے تھے۔

چوںکہ موجودہ وائس چانسلر نے اب بقیہ ادائیگی کرنے سے انکار کردیا ہے اس لئے ان کے ہی خلاف محاذ کھول دیا گیاہے۔

awazurdu

اساتذہ جائیں توجائیں کہاں

 کیا کہتے ہیں سابق وزیر عبدالستار

 عالیہ یونیورسٹی کے قیام میں کلیدی کردار اداکرنے والے سابق ریاستی وزیر عبد الستار کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے قیام کو محض15سال ہوئے ہیں اس لئے ’’ یونیورسٹی اپنے ہداف و مقاصد کو مکمل کرنے کامیاب ہوئی ہے یا نہیں اس سے متعلق کوئی بھی حتمی بات کہنا قبل از وقت ہوگا۔اس وقت تقریباً5ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں 90فیصد طلبا کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے۔

ڈاکٹر عبد الستار کہتے ہیں کہ مشرقی ہندوستان میں بہار سے لے کر ناگالینڈتک اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کیلئے کوئی بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔بنگال میں اسکول سطح تک مسلم بچوں کی تعداد دیگر کمیونیٹی کے طلبا کے برابر ہے مگر اعلیٰ تعلیم میں ڈراپ آئوٹ کی شرح بہت ہی زیادہ تھی۔بالخصوص مسلم بچیوں کیلئے کوئی بھی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔

اس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے۔ان تمام اہداف کو سامنے رکھ کر عالیہ یونیورسٹی کو 2007میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور 2008فروری میں بل اسمبلی سے پاس کیا گیا اور پھر اسی سال اپریل سے تعلیمی سیشن کا آغاز بھی ہوگیا۔ڈاکٹر عبد الستار کہتے ہیں کہ مغربی بنگال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 297ٹیچروںکے پوسٹ پر بحالی کا اعلان کیا گیا۔ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبران کیلئے پوسٹ وضع نہیں کیا گیا تھا ۔

کیا تھے خواب اور ہوا کیا ؟

 ڈاکٹر عبد الستار نے کہا کہ ہمارے پیش نظر تین بڑے اہداف تھے۔ایک اسلامک تھیالوجی کا مرکز قائم کرنا، دوسرا مسلم لڑکیوں کی تعلیمی ترقی ایک بڑا مرکز قائم کرنا، تیسرا جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرز پرایک بڑا کیمپس کی تعمیر کرنا۔

 ہم نے یونیورسٹی کے گرلس سیکشن کیلئے کلکتہ شہر کے قلب گورا چاند لین میں ’کے ایم ڈی‘ سے زمین خریدی اور وہاں کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا۔اس کے مخالف سمت میں اسٹڈیم اور کھیل کمپلیکس بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔یہاں نرسنگ کالج بھی تعمیر ہونا تھا جس کےلئے کلکتہ نیشنل کالج و میڈیکل سے معاہدہ کیا گیا تھا۔

راجر ہاٹ میں یونیورسٹی کا میڈیکل اور انجینئرنگ کیمپس کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور ہومینٹیز اور دیگر شعبے کیلئے جنوبی 24پرگنہ کے بان تلہ لیدر کمپلیکس کے آس پاس ایک بڑا عالی شان کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس کیلئے ضلع جنوبی 24کے کلکٹر کو 20کروڑ دئیے گئے تھے تاکہ وہ زمین کی خریداری کرسکے۔

جب کہ تال تلہ جہاں کلکتہ مدرسہ قدیم کیمپس ہے وہاں بھی جدید عمارت کی تعمیر کی گئی۔ 2011میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بان تلہ لیدر کمپلیکس کےپاس بننے والے عالیہ یونیورسٹی کے کیمپس کے منصوبے کو ہی ختم کردیا گیا۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ آج یونیورسٹی کے پاس جگہ کی قلت ہے۔

 ڈاکٹر عبد الستار کہتے ہیں کہ گزشتہ دس سالوں میں عالیہ یونیورسٹی کے نام پر سیاست خوب ہوئی ، ممتا حکومت نے یونیورسٹی کی عمارت کو دکھلاکر مسلم ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کی کوشش کی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے دور میں جو پروجیکٹ بنائے تھے صرف وہی پایہ تکمیل ہوسکا۔

 بان لیدر کمپلکس کے پروجیکٹ کو ختم کردیا گیا۔خود ممتا حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں بھی عالیہ یونیورسٹی کے ریاست کے دیگر مسلم اکثریتی اضلاع میں کیمپس اور میڈیکل شعبہ قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اس وعدے پر عمل کیا یونیورسٹی کو سیاست زدہ کردیا گیا ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ عالیہ یونیورسٹی کے ساتھ اور اس کے بعد بھی کئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں مگر وہ تمام یونیورسٹیاں آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ عالیہ یونیورسٹی ہی سیاست زدہ کیوں ہے۔

awazurdu