‘عبدالعزیز: بینائی سے محروم، پھر بھی کمپیوٹر کے’ استاد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-09-2021
عبدالعزیز
عبدالعزیز

 

 

یوم اساتذہ کے موقع پر خاص پیشکش 

شاہ تاج، پونہ

 

 رہبر بھی یہ،ہمدم بھی یہ،غم خوار ہمارے

استاد   یہ قوموں کے   ہیں معمار ہمارے

سنتے آئے ہیں کہ استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بنا دیتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک اچھا استاد ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون و مددگار ہوتا ہے۔ہمیں علامہ اقبال کا یہ قول بھی معلوم ہے کہ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور اُن کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا اُنہیں کے سپرد ہے۔

آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر

زمانہ بھلے ہی کتنا بدل گیا ہو لیکن آج بھی اساتذہ کی اہمیت، حیثیت اور اُن کی عزت و احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

اور اگر کہیں وہ استاد اسپیشل ہو اور اسپیشل بچوں کو پڑھاتا ہو تو اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔عبدالعزیز خود نابینا ہیں اور نابینا بچوں کو ہی کئی سال سے انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم دے رہے ہیں۔

آواز دی وائس نے اُن سے بات کی، جسے یہاں سوال جواب کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال_آپ نے درس و تدریس کا ہی اِنتخاب کیوں کیا؟ معلم کے علاوہ کچھ اور بننے کا کبھی خیال آیا؟

جواب_میں کبھی بھی معلم نہیں بننا چاہتا تھا ۔جب میں بی اے کر رہا تھا تب ساتھ ہی کمپیوٹر پروگرامنگ کا کورس بھی کر رہا تھا۔ اُس وقت میرے ایک استاد نے مجھے ایک اسپیشل بچے کو کمپیوٹر پڑھانے کے لیے کہا۔ مجھے اُس بچے کے گھر جاکر اُسے کمپیوٹر پڑھانا تھا۔ حالانکہ میں نےاپنےاستاد سےپوچھا تھا کہ کیا میں یہ کرسکتاہوں؟ اُن کا کہنا تھا مجھےیقین ہےکہ تم یہ ذمّہ داری بہ خوبی نبھاسکتےہو۔

میں نے اُس بچے کو پڑھانا شروع کیا۔دھیرے دھیرے کئی بچوں کو پڑھانے کا موقع ملا اور پھر مجھے درس و تدریس میں مزا آنے لگا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی کام کئے لیکن میں اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا۔تب احساسِ ہوا کہ میرے لیے سب سے موزوں درس و تدریس ہی ہے اور پھر میں نے اِسی سمت میں کوشش کی اور اب میں مطمئن بھی ہوں اور خوش بھی۔

سوال_کیا آپ نے کبھی عام بچوں کو بھی پڑھایا ہے؟

جواب_ایسا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔میں ہمیشہ نابینا بچوں کو ہی انگریزی اور کمپیوٹر پڑھاتا آیا ہوں۔

سوال_کیااسپیشل بچوں (نابینا) کو پڑھانے کے لیے کوئی خاص طریقہ کار اختیار کرنا ہوتا ہے؟

جواب_جس طرح ایک عام معلم کلاس میں اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھتا ہے، بچوں پر نظر رکھتا ہے۔ ٹھیک اُسی طرح ہم اپنے کان کھلے رکھتے ہیں۔ ہم ہر بچے پر نظر رکھنے کے لیے اپنی سننے کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ ابتدا میں تھوڑا مشکل معلوم ہوتا تھا لیکن اب آسانی سے ہو جاتا ہے۔

سوال_کیا اِس کے لیے آپ کو ٹریننگ لینا پڑتی ہے؟

جواب_ ہر چیز کی ٹریننگ ممکن نہیں۔اپنے تجربات سے میں نے یہ قابلیت اپنے اندر پیدا کی ہے کہ کلاس میں اگر سات بچے ہوں تو بھی میں ہر بچے پر نظر رکھ سکتا ہوں یا يوں کہیں کہ کان رکھ سکتا ہوں۔

سوال_نابینا بچوں کے لیے ایک عام ٹیچر بہتر ہے یا اسپیشل ٹیچر ؟

جواب_میرے حساب سے اسپیشل بچوں کے لیے اُنہیں کے جیسا اسپیشل معلم زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ وہ اُن کے مسائل سے واقف ہوتا ہے۔

awazurdu

عبدالعزیز اور ان کی اہلیہ شازیہ 

سوال_کیا ایک عام معلم اُن کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا؟

جواب_ایسا نہیں ہے۔ہر اسکول میں 70سے 80 فیصد تک عام ٹیچر ہی ہوتے ہیں۔لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کا رجحان اپنے جیسے اسپیشل ٹیچر کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔وہ اُس کے ساتھ اچھا محسوس کرتے ہیں۔

سوال_آپ بچوں کو پڑھاتے ہوئے رنگوں کی معلومات کیسے دیتے ہیں؟

جواب_پانچ حواسِ خمسہ میں سے ہمارے پاس ایک نہیں ہوتا۔رنگوں کو نہ ہم چھو سکتے ہیں،نہ سونگھ سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو چکھ کر اُس کا ذائقہ معلوم کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم بچوں کو رنگوں کے بارے میں پڑھاتے ضرور ہیں۔ہم اُنہیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں رنگ جیسی کوئی چیز بھی ہے۔سائنس کےفارمولوں کی طرح ہم اُنہیں رنگ بھی یاد کرا دیتے ہیں۔

سوال_ایک نابینا شخص کے لیے بہتر پیشہ کون سا ہو سکتا ہے؟

جواب_آج نابینا افراد کے لیے بہت سے مواقع ہیں۔لیکن کوئی بھی کام آسان نہیں ہے۔اگر مجھے معلوم ہے کہ میں نابینا ہوں،مجھے معلوم ہے کہ مجھے سافٹ ویئر انجنیئر بننا ہے تو مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ دوسروں کے مقابلے 100گنا زیادہ محنت کرنا ہوگی۔محنت کروں گا تو کوئی مجھے سافٹ ویئر انجنیئر بننے سے روک نہیں سکتا۔میرا نابینا پن بھی۔

سوال_آپ بچوں کو دنیا محسوس کراتے ہیں۔سب سے زیادہ کس بات پر زور دیتے ہیں؟

جواب_میں اُنہیں بتاتا ہوں کہ اگر آپ تعلیم حاصل نہیں کروگے تو کہیں کے بھی نہیں رہوگے۔ میں کوشش کرتا ہوں وہ کچھ بنیں،اپنے اوپر بھروسہ کریں اور ترقی کریں۔خود کو کسی سے کم نہ سمجھیں۔ میری پوری توجہ اُنہیں اُن کے پیروں پر،بنا کسی سہارے کھڑا کرنے کی ہوتی ہے۔

سوال_آج کل سرکاری نوکریوں میں کافی مواقع ہیں۔کیا اپنا پیشہ بدلنا چاہیں گے؟

جواب_ نہیں بالکل نہیں۔مدرس ہونا میری پہچان ہے۔جب میرے شاگرد کسی مقام پر پہنچتے ہیں میں اُس خوشی کوبیان نہیں کر سکتا جو میں اُس وقت محسوس کرتا ہوں۔یہ سکون یہ اطمینان مجھے میرے اسی کام نے دیا ہے۔

سوال_آپ لوگوں کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟

جواب_میں اسپیشل بچوں کے والدین سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اسپیشل بچوں کو باہر آنے دیں۔اُنہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد کریں اور اسپیشل بچوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو یقین جانئے آپ وہ کام کر سکتے ہیں۔کئی بار ہمیں بنی بنائی سڑک نہیں ملتی،اپنا اگلا قدم رکھنے کے لیے خود سڑک بنانی پڑتی ہے۔ جتنی بنی ہوئی سڑک ہمیں اور آپ کو آج ملی ہے اسے بنانے کے لیے کسی نے محنت اور بہت محنت کی ہوگی۔اب ہماری باری ہے کہ ہم اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور اس طرح اپنی ذمےداری نبھائیں۔

 خیال رہے کہ عبدالعزیز  کی بیوی شازیہ بھی ٹرینڈ ٹیچر ہیں۔ ابھی نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔آواز دی وائس نے اُن سے بھی دو باتیں کیں۔

سوال_آپ ڈاکٹر،انجینئر یا وکیل ہو سکتی تھیں۔آپ نے درس و تدریس کا اِنتخاب کیوں کیا؟

جواب_دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے میری آنکھوں کی روشنی بہت حد تک ختم ہونے لگی تھی۔کیونکہ میں نے روشنی بھی دیکھی تھی اور پھر اندھیروں کو بھی محسوس کیا تھا۔اِس لیے میں نے بہت پہلے طے کر لیا تھا کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کو سمجھاؤں گی تاکہ اُن کی زندگی کچھ آسان ہو سکے۔یہ پیشہ مجھے اِس لیے بھی پسند ہے کہ پیسوں کے ساتھ آپ کا علم دوسروں کے کام بھی آتا ہے۔اِس پیشے میں رہنے سے ہم بھی ہر روز کچھ نیا سیکھتے ہیں۔

سوال_اگر آپ کو موقع ملے تو آپ بچوں کو پڑھانا چاہیں گی؟

جواب_ جی بالکل۔۔میری کوشش جاری ہے۔ میں خاص طور پر نابینا لڑکیوں کی میں مدد کرنا چاہتی ہوں کیونکہ مجھے اپنی دقتوں کا علم ہے۔