بنگال: تنخواہ یا پھرموت۔ مدرسہ اساتذہ کی عدالت سےاپیل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-02-2021
مدرسہ اساتذہ اب عدالت میں
مدرسہ اساتذہ اب عدالت میں

 

 

نوراللہ جاوید ۔ کولکتہ

گزشتہ دو مہینے سے مغربی بنگال حکومت کے خلاف احتجاج کررہے منظور شدہ مدرسوں کے اساتذہ نے کلکتہ ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے اپیل کی ہے کہ ہمیں آپ حکومت سے انصاف دلائیں یا پھر سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنادیں تاکہ ہمیں آرام سے دو وقت کا کھانا مل سکے یا زندگی سے ہی نجات مل جائے ۔کلکتہ ہائی کورٹ میں دائر عرضی کو جج صاحبان قبول کریں گے یا نہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے ۔مگراس سے یہ صاف واضح ہے کہ گزشتہ دو مہینے سے احتجاج کررہے مدرسہ کے یہ اسٹاف اب مایوس ہوچکے ہیں کیوں کہ اس مدت میں حکومت کا کوئی بھی کارندہ ان سے بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے بلکہ انہیں احتجاج کرنے کےلئے بھی کلکتہ ہائی کورٹ کا سہارا لینا پڑا تھا۔مدرسہ کے ان اساتذہ کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والی وکیل نے کہا کہ اس عرضی کا کوئی پہلو گرچہ نہیں ہے مگر کیا کوئی دس سال بغیر تنخواہ کے کم کرسکتا ہے۔

یہ لوگ کہاں جائیں 

دراصل 2011 میں ممتا بنرجی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دس ہزار غیر منظور شدہ مدرسوں کی منظوری دیں گی ۔مگر ممتا بنرجی کے اقتدار کو دس سا ل مکمل ہونے میں محض چند مہینے باقی ہیں۔تو اس مدت میں حکومت دس ہزار کیا ایک ہزار مدرسوں کو منظوری دینے میں ناکام رہی ہے ۔بلکہ محض 235مدرسوں کو اس شرط پر منظوری دی ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں دی جائے گی ۔

جبکہ 8 فروری 2013 کو محکمہ اقلیتی و مدرسہ تعلیم نےمدرسہ کو رجسٹریشن کے طریقے کار کےلئے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ حکومت سےمنظوری ملنے کے بعد ان مدرسوں کو ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کےلئےمنظورشدہ مدرسے ا مداد لینے کے اہل ہوجائیں گے اور اس کے علاوہ ایم پی فنڈز اور ایم ایل اے ایریا ڈیولپمنٹ فنڈ سے بھی مالی مدد حاصل کی جاسکتی ہے ۔مگر ان دس سالوں میں نہ ان مدرسوں کو تعمیراتی فنڈ میں کوئی مدد ملی ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری سہولیات مل رہے ہیں۔

حکومت پر تنقید

پدم بھوشن قاضی معصوم اختر کہتے ہیں کہ ممتا حکومت نے اپنے دس سال دور اقتدار میں مدرسہ نظام تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب حکومت حکومت کی منظوری ملنے کے بعد اسکولوں کو فنڈ فراہم کرسکتی ہے تو پھر ان مدرسوں کو نظر انداز کیوں کررہی ہے؟

جب کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت ان مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا کو مڈڈے میل اور اسکول ڈریس ملنے چاہیے ۔مگر ممتا حکومت نہ ان مدرسوں کے طلبا کو سہولیات دے رہی ہے اور نہ اساتذہ کو تنخواہ دے رہی ہے۔

madarsa

وعدہ جو کھوکلا ثابت ہوا

بنگال میں مدرسہ نظام تعلیم میں اصلاحات میں اہم کردار ادا کرنے والے سابق ریاستی وزیر عبد الستار کہتے ہیں کہ ان مدرسوں کے اساتذہ کے مطالبات جائز ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 2011سے قبل مدرسہ سرو شکچھا ابھیان کے تحت 900مدرسوں کو منظوری دینے کا فیصلہ کیا تھا جس میں 495مدرسوں کو سرو شکچھا ابھیان کے تحت منظوری دی گئی تھی اور اب بھی 405مدرسوں کو منظوری ملنا باقی ہے ۔ممتا بنرجی نے ایک طرف دس ہزار مدرسوں کو منظور ی دینے کے وعدہ نہیں نبھا یا تو دوسری طرف جو 235منظور شدہ مدرسے ہیں انہیں بھی فنڈ نہیں فراہم کررہی ہے۔جب کہ اگر حکومت چاہتی تو ان مدرسوں کومدرسہ سرو شکچھا ابھیان(ایم ایس کے ایم) کے تحت لاکر اساتذہ کو تنخواہ دے سکتی تھی۔

حکومت کا دعوی

ریاستی وزیر اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم غیاث الدین ملا حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ممتا حکومت نے یہ سمجھا تھا کہ غیر منظور شدہ مدرسوں کی تعداد دس ہزارہوگی اس لئے ہم نے یہ وعدہ کیا تھا ۔مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے ۔اس لئے حکومت نے صرف 235مدرسوں کو ہی منظوری دی ہے ۔

ہمارے پاس فنڈ کی قلت ہے اور ہم نے منظوری دینے سے قبل ہی واضح کردیا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔مگر ان مدرسوں میں پڑھنے والے طلبا کو مڈڈ میل یا لباس کیوں نہیں مل رہے ہیں اور حکومت ان مدرسوں کو مدرسہ سرو شکچھگ ابھیان کے تحت کیوں نہیں لارہی ہے ؟اس سوال کا جواب دینے کے بجائے ملا کہتے ہیں حکومت ان کےلئے جو کچھ کرسکتی تھی وہ کرچکی ہے۔

نصاب اسکول کا ہی ہے

مغربی بنگال میں جونئیر اور ہائی مدرسہ کا نصاب اسکول کے مطابق ہی ہے صرف ایک سبجیکٹ عربک کا شامل ہے وہ بھی اختیاری ہے۔اسی وجہ سے بنگال کے سرکاری مدرسوں میں 30فیصد بچے غیر مسلم ہیں اور انہیں عربک پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔2001میں سابق بایاں محاذ حکومت نے سابق گورنر و ماہر تعلیم اخلاق الرحمن قدوائی کمیٹی کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی اور اس کمیٹی نے 2002میں بنگال حکومت کو اپنی سفارشات پیش کردی تھی۔

اس کمیٹی نے مغربی بنگال میں مدرسہ نظام تعلیم میںا صلاحات کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدرسہ کے نصاب تعلیم کو مدھیامک (دسویں)ہائر سیکنڈری کے مطابق کیا جائے ۔اس کے بعد ہی مغربی بنگال میں مدرسہ نظام تعلیم میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے مدرسوں میں غیر مسلم طلبا پڑھتے ہیں۔ سابق وزیرا علیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ اپنے دور اقتدار کے آخری سال 2011میں مغربی بنگال کے مختلف علاقوں میں12 انگلش میڈیم مدرسے قائم کرنے کا اعلان کیاتھا۔اس کےلئے کارروائی بھی شروع ہوگئی تھی مگر انتخابات قریب آنے کی وجہ سے یہ پورا معاملہ معلق ہوگیا ۔جب کہ انتخابی مہم کے دوران ممتا بنرجی نے اقلیتوں میں تعلیم کے فروغ کےلئے 100انگلش میڈیم مدرسوں کے قیام کا وعدہ کیا ۔مگر دس سالوں میں اس جانب کوئی پہل نہیں ہوئی ۔

الزامات کے گھیرے میں حکومت

اب جب کہ ممتا بنرجی اپنے اقتدار کی دوسری مدت مکمل کرنے کو ہے تو صرف 12انگلش میڈیم مدرسوں میں اساتذہ کی بحالی کا عمل شروع کیا گیا ہے ۔اس میں بھی مسلم امیدواروں کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں ۔کیوں کہ جغرافیہ کےلئے 12اساتذہ کی تقرری کی گئی اس میں ایک بھی مسلم امیدوار نہیں تھے اور اب بنگالی اساتذہ میں صرف ایک مسلم ٹیچر کو بحال کیا گیا ہے وہ بھی اوبی سی اے کوٹے کے تحت ۔جب کہ جب ان مدرسوں میں اساتذہ کی بحالی کےلئے اشتہار دیا گیا تھا اس میں اسلامی ثقافت کی شرط بھی شامل تھی ۔ایسے میں یہ سوال اٹھنے لگے ہیں جن اساتذہ کو بحال کئے جارہے ہیں وہ اسلامی ثقافت کے پس منظر کے حامل ہیں۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدرسوں کی صورت حال انتہائی خراب ہیں ۔دس سالوں تک مدرسہ سرو س کمیشن کے قانونی وجود پر کلکتہ ہائی کور ٹ اور سپریم کورٹ میں جنگ چلتی رہی ۔اب جب کہ گزشتہ سال جون میں سپریم کورٹ نے مدرسہ سروس کمیشن کی قانونی حیثیت کو بحال کردیا ہے تو حکومت مغربی بنگال کےلئے 605مدرسوں میں 20ہزار خالی اساتذہ کو بحال کرنا کسی بھی چیلنج سے کم نہیں ہے ۔