اے سرزمین دیوبند تجھے سلام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-06-2021
دارالعلوم دیوبند
دارالعلوم دیوبند

 

 

انار کی چھاؤں

آیہء صبحِ ازل، مایہءشامِ ابد

ام المدارس دارالعلوم دیوبند

سلام عقیدت-

مفتی محمد فہیم الدین‌صاحب بجنوری دارالعلوم دیوبند

(بہ موقع یوم تاسیس: 15 محرم، 1283ھ- 31 مئی 1866ء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حامدًا ومصلیًا أما بعد: (وأما ما ینفع الناس فیمکث في الأرض) الرعد: 17.

شاد باش وشاد زی اے سرزمین دیوبند ہند میں

 تو نے کیا اسلام کا جھنڈا بلند

۔ 31- مئی 1866ء کو، دارالعلوم دیوبند کی تاسیس، غیر ملکی حکومت کے قیام کا رد عمل تھا، دین وایمان کے اس مرکز کی نقاب کشائی، ایک عہد کا خاتمہ اور ایک نئے عہد کا آغاز تھا، ملت کے دور اندیش ناخداؤں نے، ریاستِ مدینہ کے اس عکسِ جمیل سے، زوال سلطنت کی تلافی کی تھی، تعلیم، تبلیغ، ارشاد، تلقین، بہبود اور ودفاع، جیسے کلیدی فرائض، مملکت اسلامی کی غیر موجودگی میں، اس نئی ریاست پر انحصار کرنے والے تھے، فیضِ غیب کی دست گیری، روز اول سے ہم دوش تھی؛ اس لیے اسلام کا یہ مرکز، ملک وملت کی ان بلند توقعات پر پورا اترا۔

اس مبارک شجر کے برگ وبار، درس وتدریس، تعلیم وتعلم، وعظ وتبلیغ، دعوت وارشاد، سلوک وتصوف، سیاست وصحافت، تاریخ وسیر، شعرو ادب، تصنیف وتالیف، خدمتِ خلق، تحریک آزادی، اسلامی ممالک کا دفاع، جیسے متنوع گوشوں تک پھیلے ہوئے ہیں؛ لیکن اس مختصر مضمون میں، بعض پہلؤوں کا انتخاب مجبوری ہے۔

تعلیم کے عنوان کا یہ گل شن، تحریکِ حریت کی رزم گاہ بھی رہا، وقتِ نفیر، علم کی نازک شاخیں، تیغ وسنان کی صورتیں اختیار کرنے میں پیش پیش رہیں، آزادی کے جس تن آور درخت پر، فی زمانہ، تعصب کا پرچم لہرا رہا ہے، اس کے پودے کی تخم ریزی، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حجۃ الاسلام، امام نانوتوی، قطب عالم، حضرت گنگوہی وغیرہ علیہم الرحمہ نے کی، آب یاری، شیخ الہند اور ان کے ہم راز دستے کے خون سے ہوئی، پھر ثمر آوری تک، اس کی سرپرستی کا فریضہ، شیخ الاسلام حضرت مدنی علیہ الرحمہ نے انجام دیا؛ یہ سب وہ ہستیاں ہیں، جنھوں نے دارالعلوم دیوبند کا خواب دیکھا، یا اس کی تعبیر کا حصہ بنے۔

دارالعلوم دیوبند، آزادی کی جولان گاہ بھی تھا اور قربان گاہ بھی، آزادی کے لیے مچلنے والے سرفروش ِوطن یہیں سے اٹھے، مالٹا کی داستان، آزادی ہند کی زینت ہے، یک صدی پر مشتمل جد وجہد میں، حریت کی منزلوں کے میر کارواں ہم ہی تھے، غلامی کا خار، نہرو گاندھی سے زیادہ، شیخ الہند وشیخ الاسلام کے سینوں میں چبھتا تھا، ملک کی اکثریت کا سینہ اگر تنگ نہ ہوتا، تو دارالعلوم،ان کے نزدیک بھی، سرمایہء وطن، جانِ وطن، نازِ وطن اور شانِ وطن تھا۔

تعلیمی داستان کے لیے دفاتر درکار ہیں، ہمارا اساسی عنوان جو ٹھہرا، اس حوالے سے، بجا طورپر، ازہر کے بعد، تمام دنیا میں، دوسرا نام دیوبند ہے؛ علم وفکر کے باب میں، دارالعلوم نے بر صغیر کو نہ صرف یہ کہ خود کفیل بنایا؛ بل کہ اس نے خانہ زاد حقائق ومعارف، یواقیت وجواہر، تحقیقات کے نوادر، مباحث و علوم؛ بہ شمول عرب، ساری دنیا کو بر آمد بھی خوب کرائے، طیبہ کی مئے مرغوب اور سفال ہندی کے سنگم نے، شیشہ وساغر کی نئی تاریخ رقم کی۔

ملی خدمت کے زریں باب کا چشمہ بھی یہیں سے پھوٹا، جمعیت علمائے ہند کی دست گیری نے، برصغیر سمیت ساری دنیا کو فیض یاب کیا، تقسیم ملک کی قیامت ہو، یا فساد کے بہانے قتل عام کے منصوبے؛ ہر آزمائش نے اہل عزم کی اس انجمن کو سینہ سپر پایا، قدرتی آفات، قوم وملت کی مفلوک الحالی، تعلیمی پسماندگی، فکری پراگندگی، معاشی درماندگی، غرض! ہر درد کی دوا میں، یہ ایک حوالہ کفایت کرتا رہا۔

دعوت وارشاد ہمارا استعارہ ہے، تبلیغی جماعت کا صور پھونکنے والا مرد مؤمن، اسی خاک سے اٹھا تھا، دشت ودریا کے فاتحین کا سرمایہء رہبری، اسی احاطے میں تیار ہوتا ہے، اس جماعت کے گشت کی آفاقی نمائندگی نے، مادر علمی کے فیض کو عالم گیر ہونے کے نئے مواقع دیے، ہمارے اس بازو کی وسعت، عالمی تنظیموں کے لیے سامان رشک وحسرت ہے۔

میلہ خدا شناسی میں مسیحی رہنماؤں کو دی گئی للکار نے، حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا پیغام واضح کردیا تھا کہ تعلیمی پیرہن والا یہ ادارہ، ایک ہمہ جہت اور مختلف الاطراف تحریک ہے، ہمہ جہت مزاحمت اس کا اصل الاصول اور خمیر خاص ہے۔

حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کا یہ پیغام ان کے تلامذہ اور وارثین کو ازبر رہا، حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کی تحریک ریشمی رومال، اس مزاحمت کا ایک روشن باب ہے، حضرت مولانا احمد حسن امروہی، حکیم رحیم اللہ بجنوری، مولانا فخر الحسن گنگوہی، مولانا عبد العلی میرٹھی وغیرہ شاگردان کو، سر بہ کف ہو کر عیسائی مشنریز سے، نبرد آزما ہونے کی تحریک، اسی پیغام سے ملی تھی۔ خاموش مزاحمت کی یہی تلقین، ہمیں فرق باطلہ کے ساتھ محاذ آرا کردیتی ہے، دینی پس منظر میں ہم گم راہ فرقوں، فاسد افکار، الحاد وارتدادکے سامنے سینہ سپر ہیں۔

آج ہم بے کس وبے سہارا ہیں، کم زور وعاجز ہیں، مظلوم ومجبور ہیں؛ جیسے بھی ہیں؛ لیکن وقت کے سب سے بڑے طاغوت، ہندو توا کے بے قابو سیلاب کی باڑ بھی ہم ہیں، قاسم ومحمود کی ارواح طیب کو سلام!