بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-03-2022
  بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی
بچوں کو اردو ضرور پڑھائیں:ڈاکٹر اطہر فاروقی

 


آواز دی وائس، نئی دہلی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام پذیر نئی دہلی،12مارچ:غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ بین الاقوامی غالب سمینار اختتام کو پہنچا۔ ”معاصر اردو ادب میں نئے تخلیقی روپے“ کے عنوان سے منعقدہ غالب سمینار کے آخری روز کے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کی۔

 پروفیسر شافع قدوائی نے”تعزیری نظام کے خلاف مزاحمت کا استعارہ: اللہ میاں کا کارخانہ“،لندن سے تشریف لائے جاوید کاکرو نے”Contemporary Relevance Challenges And Prospects For Promotion Urdu Language“ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے”اردو افسانے کے رجحانات“ کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔

اختتام پر صدر اجلاس ڈاکٹر اطہر فاروقی نے اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 75برسوں سے اردو کی فکر کی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی کی جاتی رہے گی۔ اردو کی بہتری اسی بات میں ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں، اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو لاکھ تقریریں کر لی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔

آپ تقریریں کریں اور دوسروں کے بچے اردو پڑھیں یہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ جب کہ پروفیسر خالد اشرف نے”اردو زبان کا بدلتا ہوا منظر نامہ اور چند اہم ناول“،پروفیسر ابن کنول نے”اردو افسانہ عہد حاضر میں“پروفیسر ثروت خان نے”ماضی کی بازیافت:اردو کے چند نئے ناولوں کے آئینے میں“ کے عنوان پر اپنے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے صدارتی خطبے میں فرداً فرداً سبھی مقالات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ 21ویں صدی ناول کا عہد ہے، اس زمانے میں کئی اہم ناول لکھے گئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان تمام باتوں کو بھی معاصر ادب میں شامل کیا جانا چاہئے۔تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کی جب کہ پروفیسر غضنفرنے”اردو ناول کی تجدید اور پیغام آفاقی“پروفیسر صغیر افراہیم نے”اردو ناولون میں تہذیبی بازیافت“،اور ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے”اردو افسانہ اور نئی حقیقت نگاری“کے عنوان پر مقالات پیش کیے۔

سمینار کے آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کی اورپروفیسر علی احمد فاطمی کا مقالہ ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے پیش کیا۔ ڈاکٹر عرفان عارف نے”اردو افسانے کے نئے تخلیقی روپے اور رجحانات“، ڈاکٹر الطاف انجم نے”فائرنگ رینج کا بیانیاتی جائزہ“ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے کہا کہ سمینار کا موضوع متاثر کن اور بحث انگیز ہے، مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس موضوع کو مرکز میں لاکر اس سمینار کا انعقاد کیا۔

سبھی پیپر اہمیت کے حامل تھے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی، اس موقع پر انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اپنے سمیناروں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرے جو محض روایتی نہ ہوں بلکہ اس کے ذریعے نئے مباحث پر خاطر خواہ روشنی ڈالی جاسکے۔ یہ موضوع بھی اسی نوعیت کا تھا، مجھے خوشی ہے کہ تمام شرکاء نے بڑی محنت سے مقالے لکھے۔

پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اہم سوال ہے کہ معاصر کی تاریخ کا تعین کیسے ہو، کس قسم کے ادب کو معاصر کہا جا سکتا ہے۔ کیا وہ ادب معاصر کہلائے گا جو عصری،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل کی نمائندگی کر رہا ہے یا وہ جس کی پہچان ادبی پیمانون سے کی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی بہت سے سوال اس سیمنار میں ابھرے ہیں اور ان کا سب نے اپنے اپنے طور پر جواب تلاشنے کی کوشش کی۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم سبھی مقالوں کو یکجا دیکھیں گے تو کسی نتیجے پر پہچنے میں آسانی ہوگی۔پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ میں عرصے سے اس سمینار میں شریک ہوتا رہا ہوں اور مجھے یہاں ہونے والے سمینار متاثر کرتے ہیں۔ ایوان غالب کا سمینار تخلیقی بصریتوں کا خیال افروز محاکمہ ہے، یہاں خیالات کی یکسانیت کے بجائے خیالات کے تصادم کی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ جس سے ہم ایسے نتیجے پر پہنچتے ہیں جو پہلے سے ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا۔

پروگرام کے اختتام پر غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے اظہار تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے بڑی خوشی ہورہی ہے کہ اس سمینار کے بنیادی موضوع ’معاصر ارو ادب کے تخلیقی رویے‘ پریہا ں جو مقالات پیش کیے گئے، ان سے ہمارے عہد کے ادبی میلانات اور صورت حال کاایک عمدہ خاکہ مرتب ہوتاہے۔ سمینار میں جو مقالات پیش کیے گئے ان میں اکثر کو سنتے ہوئے یہ محسوس ہواکہ یہ موضوع ایک سمینار میں سامنے والا نہیں ہے۔ زیادہ تر مقالہ نگارنے بڑی محنت اور ذمہ داری سے مقالے لکھے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ سمینار ایک فضاکی تشکیل کرتاہے وہ مباحب یاوہ گوشے جن کی طرف ہماری توجہ کسی وجہ سے نہیں ہوپاتی انہیں مرکز میں لے آتاہے۔ ہمارے یہاں کلاسیکی ادب پر بہت گفتگو ہوئی، جدید ادب پر بھی خاصا لکھا گیالیکن جدید ادب جس سے میری مراد معاصر ادب ہے ایک دھند کی سی کیفیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی وہ کون سے میلان ہیں جو پیش رو میلانات سے مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ہمارا معاصر ادب اپنا وجود ثابت کررہاہے اور ہماری فہم کی بھی آزمائش کررہاہے۔ لیکن سمینارکی ایک خامی یہ بھی ہے کہ یہ بہت دنوں تک ہمارے ذہنو ں میں تازہ نہیں رہتا۔ یہ فریضہ کتاب ادا کرتی ہے اور جیسا کہ ہمارا روایت رہی ہے ہم بہت جلد ان مقالات کو کتابی شکل میں بھی شائع کریں گے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ جب یہ کتاب منظرعام پر آئے گی تو اس موضوع پر اس کی حیثیت حوالے کی ہوگی۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ اس کی علمی حیثیت آپ کی کاوشوں اور ذکاوتوں کے نتیجے میں ہوگی۔ لہٰذا آپ دوتین مہینے میں اپنے مقالے اور متعلقہ موضوع سے متعلق جتنا اضافہ کرنا چاہیں وہ اس کتاب کے حق میں مفید ہوگا۔

میں فرداً فرداً سب کا نام لوں تو ممکن ہے کہ کسی کا نام چھوٹ جائے میں تمام مقالہ نگار، صدور اور شرکاکادل کی گہرائیوں سے سے شکریہ ادا کرتاہوں اور آئندہ بھی آپ کے تعاون کی امید رکھتا ہوں۔ ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ تمام شرکا کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، اس کے باوجود اگر ہماری طرف سے کچھ کمی رہ گئی ہوتو اسے در گزر فرمائیں۔ہاں ذاتی طور پرہمیں مطلع فرمائیں تاکہ ہم اس کا آئندہ خیال رکھیں۔اس موقع پر یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز کوسرٹیفکیٹ اور کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔ شام میں اردو ڈرامہ”مشاعرہئ رفتگاں“ پیش کیا گیا، تحریر و ہدایت کار ڈاکٹر محمد سعید عالم کی نگرانی۔جب کہ پیش کش تھی ’ہم سب ڈرامہ گروپ(غالب انسٹی