کمزورطبقات کے حقوق کےمحافظ قرآن کریم کا،رمضان میں پیغام

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-04-2021
قرآن کریم
قرآن کریم

 

 

رمضان،جس میں نازل ہواقرآن

پسماندہ سماج کو جو حقوق دنیا کے قوانین نہیں دے پائے، وہ قرآن نے دئیے۔

غریب۔ کمزور۔ مظلوم اور یتیم کے حقوق کی حفاظت اقوام متحدہ سے 14 سو سال پہلے قرآن کریم نے کی تھی۔

غوث سیوانی،نئی دہلی

دنیا میں کمزور طبقات کا استحصال بہت عام ہے۔ ان کے حقوق دبائے جاتے ہیں اور وہ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کر پاتے۔ یہ کمزور طبقات کئی قسم کے ہوتے ہیں اور ان کی مجبوریاں بھی الگ الگ طرح کی ہوتی ہیں۔ اخلاق کا تقاضہ تو یہ تھا کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کی مدد کی جائے اور دوسرے سماجی طور پر مضبوط لوگ تعاون کے لئے سامنے آئیں، مگر ایسا نہیں ہوتا۔

برعکس اس کے مضبوط اور دبنگ قسم کے لوگ کمزوروں کے حقوق غصب کرنے لگتے ہیں۔ قرآن مجید چونکہ اللہ کے احکام کا مجموعہ ہے، لہٰذا اس میں دنیا کے سبھی طبقات کے حقوق بیان کر دئیے گئے ہیں اور واضح الفاظ میں ان کی تشریح پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمادی ہے۔ بعض مسائل کو قرآن نے نہیں بیان کیا ہے مگر جو زیادہ ضروری مسائل ہیں ان کے احکامات بیان کر دیئے گئے ہیں، چنانچہ کمزور طبقات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔

اس سے ان کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اب ان میں دنیا کے لوگوں کو کسی قسم کا کنفیوژن نہیں رہنا چاہئے۔ کمزور طبقات کی مختلف قسمیں ہیں اور قرآن نے ان سبھی کے حقوق کو بیان کیا ہے، مگر ہم یہاں صرف چند کمزور طبقات کا ذکر کرتے ہیں۔

چودہ سو سال قدیم قرآن کریم کا ایک نسخہ،جوخلیفہ سوم عثمان بن عفان کے پاس تھا

یتیم کے حقوق

کم عمر اور نا سمجھ بچے اپنے جسم اور دماغ دونوں سے کمزور ہوتے ہیں، اسی لئے ان کی ذمہ داری ان کے والدین پر ہوتی ہے جو، ان کی پرورش وپرداخت کرتے ہیں اور تعلیم و تربیت سے سنوارتے ہیں۔ یہ بچے اگر اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائیں یا کسی بچے کی ذمہ داری اٹھانے والا باپ ہی دنیا میں نہ رہے، تو عموماً ایسے بچوں کی پرورش اور تربیت درست طریقے پر نہیں ہو پاتی۔

ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو صنعتوں، ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرتی ہوئی ملتی ہے۔ ان میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں، جو یتیم نہیں ہوتے پھر بھی والدین غربت کے سبب انہیں اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ حکومت بچہ مزدوری کے خلاف محض قانون بنا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتی ہے اور ملک کا مستقبل تباہ ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے خاص تاکید فرمائی ہے کہ یتیموں کا حق ادا کیا جائے، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور ان کے مال پر قبضہ نہ کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’جو یتیم ہے اسے مت دباؤ۔‘‘ ( سورۃ الضحیٰ۔ آیت 9)

دوسری جگہ حکم الٰہی ہے:

’’اور یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو۔ مگر اس طریقہ سے، جو اس کے حق میں بہتر ہو‘‘ (سورۃ اسراء آیت 34)

 دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو ظلم و زیادتی سے یتیموں اور بے سہارا بچوں کے حقوق چھین لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا اور فرمایا گیا

’’جو لوگ ظلم و زیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر رہے ہیں، وہ تو بس اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔‘‘ (سورۃ انساء، آیت 10)

 مذکورہ آیات کے علاوہ بھی قرآن میں بہت سے مقامات پر یتیموں کے مال سے دور رہنے کی تاکید آئی ہے اور ان کے اموال پر زبردستی قبضہ کرنے پر جہنم کے عذاب کا خوف دلایا گیا ہے۔ یتیموں کے زمرے میں وہ بچے بھی آتے ہیں، جن کے والدین زندہ تو ہیں، مگر کسی مجبوری کے سبب اپنے بچوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے۔

مسکین کے حقوق

قرآن کاایک قدیم ورق

ہمارے سماج میں ایک کمزور طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے، جو کم سن بچہ تو نہیں، مگر اپنی ناداری اور غربت کے سبب قابل رحم حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس طبقے کو مسکین کہہ سکتے ہیں، یعنی ایسا غریب انسان۔ جس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ نہ تو ایک وقت کا کھانا ہے اور نہ ہی بدن چھپانے کے لئے لباس۔ ایسے انسان کو مال زکوٰۃ کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور زکوٰۃ کے مستحق سات طبقات میں قرآن نے اسے بھی شمار کیا ہے۔

یعنی یہ وہ طبقہ ہے، جس کا حق ہر صاحب ثروت مسلمان کے مال میں ہے۔ اگر مالدار شخص اپنے مال سے اس کی مدد نہیں کرتا۔ تو اللہ کی بارگاہ میں اس سے باز پرس ہو گی۔ قرآن نے ایسے شخص کی تحسین کی ہے، جو مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا

’’اور وہ مسکین کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

مسکینوں کے حقوق نہ ادا کرنا قانون الٰہی کی نظر میں جرم عظیم ہے اور اس کے لئے جہنم کے عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا

’’اس کو پکڑو۔ پھر اس کی گردن میں طوق ڈالو۔ پھر اس کو جہنم میں جھونک دو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ مسکینوں کے کھلانے پر لوگوں کو ابھارتا تھا۔ (الحاقہ۔ آیت 30-34)

اوپر صرف چند آیات قرآنیہ کا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی قرآن میں جگہ جگہ مسکین اور سماج کے کمزور و پسماندہ طبقات کے حقوق کی تاکید آئی ہے۔

فقیر کے حقوق

فقیر ایسے شخص کو کہتے ہیں، جس کے پاس بہت کم دولت ہو۔ اتنی کم کہ اس کی اور اس کے گھرگرہستی کی ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں۔ غریبی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات اچھے خاصے مالدار لوگ بھی رفتار زمانہ کے سبب غریب ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گجرات کے فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو ہی دیکھا جا سکتا ہے، جن کے پاس بڑے بڑے شوروم تھے اور بڑی دولت کے مالک تھے، فسادات کے نتیجے میں سڑکوں پر آ گئے۔

ان کے بچوں کو مجبوری میں کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس طرح جو لوگ مکہ معظمہ میں صاحب ثروت تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ شریف چلے آئے، وہ غریب ہو گئے تھے۔ قرآن مجید نے غریبوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسے لوگوں کو صدقہ دینا بھی جائز ہے۔ قرآن میں ان کے حقوق کے تعلق سے فرمایا گیا:

’’یہ ان فقیروں کے لئے ہے، جو خدا کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ زمین میں کاروبار کے لئے نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ بے خبر، خود داری کے سبب ان کو غنی خیال کرتا ہے۔ تم ان کو ان کی صورت سے پہچان سکتے ہو۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ (سورۃ البقرہ۔ آیت 273)

اصل میں یہ وہ سادہ پوش افراد ہیں، جو اپنی غربت کو سفید پوشی کی چادر میں چھپائے رہتے ہیں۔ ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہو پاتیں، مگر شرم و غیرت کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا پاتے۔ ایسے لوگ بھی انہیں کمزور طبقات میں شمار ہوتے ہیں، جن کی مدد کی تاکید قرآن کریم میں آئی ہے۔

مسافر کے حقوق

قرآن مجید نے مسافروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ مسافر وہ شخص ہے، جو حالت سفر میں ہے اور اپنے گھر وخاندان سے دور ہے۔ وہ اپنے گھر میں ممکن ہے مالدار ہو۔ مگر حالت سفر میں وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔ آئے دن میڈیا میں مسافروں کے لٹنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

ٹرینوں میں چوروں کے گروہ بے ہوشی کی دوائیں کھلا کر انہیں لوٹ لیتے ہیں۔ یہ بیحد افسوسناک پہلو ہے۔ عہد قدیم میں قافلے لوٹے جاتے تھے اور ڈاکوؤں کے گروہ ویرانوں میں پناہ لئے ہوتے تھے، مگر آج دور بدل چکا ہے، تو لٹیروں کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ البتہ قرآن کریم کے احکام ہر دور کے لئے ہیں۔ فرمایا گیا:

’’ کہہ دو۔ جو مال تم خرچ کرتے ہو۔ وہ والدین۔ قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ 215)

’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین۔ قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، پڑوسیوں، اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (سورۃ النساء آیت 36)

مذکورہ آیات میں مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ والدین۔ رشتہ دار۔ یتیم۔ مسکین اور پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنے کا حکم ہے۔ حسن سلوک کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں غور و فکر کرنا چاہئے۔

کمزور طبقات کی فہرست

کمزور طبقات کی فہرست بہت لمبی ہے۔ قرآن مجید نے ان میں سائل۔ غلام ونوکر۔ مقروض۔ قیدی اور محروموں کو شمار کیا ہے اور ان کے حقوق کی طرف سماج کو متوجہ کیا ہے۔ اس مضمون میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ سب کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔ اگر قرآنی احکام کو سمجھ کر پڑھا جائے اور ایمانداری کے ساتھ انہیں زندگی میں اپنا لیا جائے، تو سماج میں کوئی بھی فرد کمزور اور پسماندہ نہ رہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا قرآنی احکام سے ناواقف ہے اور مسلمان بھی اس کی صرف رسمی تلاوت کرتے ہیں کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔