کووڈ دور میں ڈیجیٹل تعلیم تک عدم رسائی لڑکیوں کی ترک تعلیم کی وجہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-06-2022
کووڈ دور میں ڈیجیٹل تعلیم تک عدم رسائی لڑکیوں کی ترک تعلیم کی وجہ
کووڈ دور میں ڈیجیٹل تعلیم تک عدم رسائی لڑکیوں کی ترک تعلیم کی وجہ

 

 

حیدرآباد: کووڈ کے دوران، بہت زیادہ لڑکیوں کو تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ انفراسٹرکچر کی کمی اور ڈیجیٹل تعلیم تک عدم رسائی نے اس میں مزید اضافہ کیا۔ وبائی دور میں آن لائن تعلیم سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ریکھا پانڈے ، ڈائرکٹر سوسائٹی فار ایمپاورمنٹ تھرو اینوائرنمنٹ ڈیولپمنٹ (سیڈ) نے کل مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی ، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں (سی ڈبلیو ایس) اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس (سی ڈی پی پی)، حیدرآباد کے زیر اہتمام قومی کانفرنس ”صنف اور شمولیت: مسلم خواتین کے خصوصی حوالے سے“ کے دوسرے دن کیا ۔ مانو کیمپس میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں گونج، صفائ، ساہیتہ ٹرسٹ، ڈیجیٹل ایمپاورمنٹ فاﺅنڈیشن(ڈیف) اور سوچناپرینیور اشتراک کر رہے ہیں۔ پروفیسر پانڈے نے تعلیم پر کووڈ کے اثرات اور سماجی و اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالی۔

پروفیسر شاہدہ، ڈائرکٹر سی ڈبلیو ایس کے بموجب مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم اور اسکالرز - محترمہ ارویندر انصاری، ملیکا مستری اور سنگیتھا اے، نیلانجن بنک اور شرن اہلووالیا نے ”تعلیم اور معاش“ پر بحث کی جس میں بنیادی طور پر خواتین کی کم شرکت اور اس میں آرہی مزید کمی پر توجہ مرکوز کی گئی۔اس بحث میں تعلیم، صنف اور اس کے اردگرد درپیش چیلنجز کے بارے میں متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔

ملیکا مستری نے نشاندہی کی کہ تعلیم خواتین کو قابل بنانے اور انہیں بااختیار بنانے کی طاقت رکھتی ہے۔ محترمہ شرن نے ڈیجیٹل تعلیم کے مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالی ۔ محترمہ نیلانجن بنک نے پرائمری تعلیم، نئی تعلیمی پالیسی(NEP) اور تعلیم کے معیار کے بارے میں گفتگو کی۔

محترمہ ویشالی نے ترقیاتی ایجنڈے پر روشنی ڈالی جس نے مختلف ضروریات کو پورا کرنے والے مختلف قسم کے اسکولنگ سسٹم کے ساتھ تعلیم کو مستحکم کیا۔ محترمہ اروندر انصاری نے تعلیم کے مضمرات کے بارے میں بتایا اور کہا کہNEP کس طرح مقامی زبان کی تعلیم کے ساتھ طلبہ کو متاثر کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا زور موجودہ اداروں کو بہتر بنانے پر ہونا چاہیے۔

جناب پی سی موہنن، سابق رکن، قومی اعداد و شمار کمیشن، نے نشاندہی کی کہ کووڈ 19 کے دوران اموات کے اندراج کا تنازعہ درست ڈیٹا اکٹھا نہ ہونے کی وجہ سے ہوا تھا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ عام طور پر بچے کی پیدائش معمول کی رہائش کی جگہ کے بجائے زچگی کے مقام پر رجسٹرڈ ہوتی ہے جس کی وجہ سے علاقے کی آبادی کا اندازہ لگانے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسی طرح کے مسائل، موہنن کے خیال میں، کووڈ اموات کی رپورٹنگ میں درپیش رہے۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ اس مسئلے سے نکلنے کا ایک طریقہ مردم شماری ہے۔

پینل مباحثہ ”صحت کے اشاریئے: خطرے کی وجہ کیا ہے؟“ میں محترمہ میناکشی گپتا نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر سنگھمترا آچاریہ، نے کہا کہ خواتین کی صحت صرف خواتین کی جسمانی صحت تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کا بھی احاطہ کیا جائے۔ صحت کی دیگر تمام اقسام کے حوالے سے خواتین کی صحت کو سب سے کم ترجیح دی جاتی ہے۔

ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر امیتابھ کنڈو، نے کانفرنس کے آخری سیشن میں لیبر مارکیٹ میں امتیازی سلوک کے بارے میں اپنا ایک اہم مطالعہ پیش کیا۔ یہ مطالعہ لیبر مارکیٹوں میں خواتین، مسلمانوں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے خلاف بعد از کووڈ امتیازی سلوک کے جائزہ سے متعلق تھا۔ یہ نتائج ڈاکٹر کنڈو کے آکسفیم انڈیا کے لیے کی گئی تحقیق پر مبنی تھے۔ جناب پی سی موہنن، جناب اسامہ منظر، بانی و صدر ڈیف پینلسٹ تھے۔

کل شام لامکاں، بنجارہ ہلز، حیدرآباد میں منعقدہ پینل مباحثہ ”پُر خطر مقامات، شعبوں اور روزگار میں خواتین“ میں محترمہ وحیدہ نینار، بانی و ڈائرکٹر ویمنس ریسرچ ایکشن گروپ، محترمہ فاطمہ خان، صحافی (دہلی)، پروفیسر اسیم پرکاش، ٹی آئی ایس ایس، محترمہ روبینہ عائشہ، سابق کارپوریٹر جی ایچ ایم سی پینسلٹ تھے۔ محترمہ منیشا سیٹھی ماڈریٹر تھیں۔ محترمہ شیرین اعظم، ڈاکٹورل ریسرچ، یونیورسٹی آف آکسفوڈ؛ انشو گپتا، بانی و صدر نشین، صفا اور جناب اسامہ منظر؛ مباحثہ ”سیول سوسائٹی کا کردار“ کے پینلسٹ تھے۔ محترمہ سمائرہ ناصر، ماہر تعلیم ماڈریٹر تھیں۔ پروفیسر عامر اللہ خان، ریسرچ ڈائرکٹر سی ڈی پی پی پہلے دن منعقدہ مباحثوں کے ماڈریٹر تھے۔