جامعہ: ’اپسٹومولوجی آف سوشل ایکس کلوژن‘ پر آن لائن ویبینار

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-03-2022
جامعہ: ’اپسٹومولوجی آف سوشل ایکس کلوژن‘ پر آن لائن ویبینار
جامعہ: ’اپسٹومولوجی آف سوشل ایکس کلوژن‘ پر آن لائن ویبینار

 


آواز دی وائس، نئی دہلی

مرکز برائے سماجی علاحدگی و اشتمالی پالیسی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ممتاز لیکچر سیریز کا افتتاحی آن لائن لیکچر مؤرخہ اٹھائیس مارچ دوہزار بائیس کومنعقد کیا۔پروفیسر وویک کمار،جواہر لعل نہرویونیورسٹی،نئی دہلی نے یہ لیکچر دیا۔

مرکز برائے سماجی علاحدگی و اشتمالی پالیسی کی جانب سے ممتاز لیکچر سیریز منعقد کرانے کا مقصد یہ ہے کہ طلبا متعلقہ شعبے کے ماہرین کے توسط سے سماجی علاحدگی اور اشتمالی پالیسی کے مختلف پہلوؤں اور جہات سے واقف ہوسکیں۔

 سینٹر کی ڈائریکٹر اور پروفیسر اروند ر انصاری کے خطبہ اور ممتاز لیکچر سریزکے کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر ہیم بورکر کی تعارفی تقریر کے ساتھ افتتاحی جلسے کی ابتدا ہوئی۔ڈاکٹر بورکر نے ممتاز لیکچر سیریز کا تصور سامعین کے سامنے پیش کیا اور مقرر کے ساتھ سامعین کا بھی خیر مقدم کیا۔

 پروفیسر کمار نے سوشل سائنس کے اپسٹومولوجی کے تصور کی وضاحت کی اوربتایاکہ ’طریقہ کار‘،طریقیات‘ اور ’اپسٹومولوجی‘ جیسے تصورات ایک دوسرے سے علاحدہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں،ڈسپلن کو ڈسپلن بنانے میں یہ تصورات کس طرح اپنا مخصوص رول ادا کرتے ہیں انھوں نے اس کی وضاحت کی۔

سماجی علاحدگی کے تصورپر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انھوں نے ان بنیادی تصورات کی تفہیم کی ضرورت پر زور دیا جنھوں نے سماجی علاحدگی کے موضوع اور ڈسپلن کی تعریف اور اس کے دائرے کو متشکل کیا ہے۔

انھوں نے اس بات کی اہمیت اجاگر کی کہ سماجی علاحدگی کے موضوع کی تفہیم کے لیے بین علومی اور کثیر علومی اپروچ ہی کافی نہیں بلکہ انٹر سیکشنالیٹی اپروچ بھی درکار ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کس طرح مغربی عینک سے ہم نے سماجی علاحدگی کے تصور کی بابت اپنی فہم بنائی ہے تاہم ہندوستانی پس منظر میں ناکام ہے کیوں کہ یہاں فرد کے بجائے سماج نمایاں ہوتاہے۔

انھوں نے رسمی ادارے (جیسے کہ بیوروکریسی،عدلیہ،یونیورسٹیز)اور غیر رسمی ادارے(جیسے کہ خاندان)کی شناخت بھی کی جو سماجی علاحدگی کے آئیڈیا کو پہچاننے میں اہم رول اداکرتے ہیں اور اس سے بالا تر کی بھی سمجھ پیداکرتے ہیں۔

پروفیسر کمار نے اپنی تقریر کے آخر میں علاحدگی اور شمولیت کے درمیان تسلسل کو اجاگر کی جہاں انھوں نے بتایا کہ سماجی علاحدگی ہزار سالہ تاریخ ہے جب کہ شمولیت کی ہندوستان کے آئین نے وضاحت کی ہے اور ہندوستان میں آئینی پالیسی نسبتاً نیا تصورہے (صرف سات دہائی قدیم)اس لیے دونوں کے درمیان گیپ کا پایا جانا فطری ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ علاحدگی اور شمولیت کے درمیان تسلسل کو سمجھا جائے اور جامع انڈیا کی تعمیر کے لیے علاحدگی وشمولیت کے تسلسل پر بیداری پید اکی جائے۔

مختصر مباحثہ اور سامعین کے تبصروں کے بعدجن میں کہا گیا کہ ان سوالات پرغور و خوض کرنے کی ضرورت ہے پروگرام اختتام پزیر ہوا۔پروفیسر کمار نے اضافیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بلکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ ایسی ایجنسی کی اہمیت پر زوردیا جو ظالم اور مظلوم دونوں کو متاثر کرنے والے ظلم کا حل نکالے۔