مانو میں داراشکوہ پر بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-07-2022
مانو میں داراشکوہ پر بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام
مانو میں داراشکوہ پر بین الاقوامی کانفرنس کا اختتام

 

 

آواز دی وائس، حیدرآباد

ہندوستان کے لوگوں کی دعاءہوتی ہے کہ سب کا بھلا ہو۔ سب ایک ہیں۔ سب کو اللہ اور ایشور نے بنایا ہے۔ داراشکوہ نے اسے سمجھا اور لوگوں تک پہنچایا۔ دنیا میں ہر ملک اپنی ایک علیحدہ خصوصیت رکھتا ہے۔ ہندوستان واحد ملک ہے جو ناقابل تصور اور لامحدود تنوع کے باوجود اپنے خمیر میں شمولیت کا عنصر رکھتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر کرشنا گوپال، ممتاز اسکالر، دارا شکوہ اسٹڈیز نے آج مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی، شعبہ فارسی و سنٹرل ایشین اسٹڈیز اور این سی پی یو ایل کی جانب سے ”مجمع البحرین دارا شکوہ :مذہبی اور روحانی نظریہ صلح کل کی مشعل راہ“ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ جناب ممتاز علی (شری ایم)، چانسلر مانو سرپرست تھے۔ جبکہ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔

ڈاکٹر کرشنا گوپال نے کہا کہ ہمارا ارادہ تھا کہ داراشکوہ کا کام یکجا ہوجائے اور اس کا ترجمہ اردو میں ہوجائے۔ ہندوستانی روایت کا بڑا حصہ مکالمہ پر مبنی ہے۔ اس سے قبل کسی نے کیا ہو اس کی اطلاع نہیں ملتی۔ داراشکوہ نے ہندو مسلم دونوں میں مکالمہ کا آغاز کیا۔ اس نے دراصل مکالمہ کی روایت بحال کی ۔ اس کے بعد اس نے بنارس، دہلی، آگرہ، لاہور ، سری نگر میں لائبریریاں قائم کیں۔

جناب ممتاز علی، چانسلر، مانو نے کہا کہ اس طرح کی مزید کانفرنسیں ہونی چاہئیں جس میں مکالمہ ہو اور مختلف موضوعات پر بحث ہو۔ مجمع البحرین کانفرنس کے بعد امید ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے اور اس بارے میں سوچیں گے کہ کس طرح امن و آشتی کا ماحول فروغ پائے۔

پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ میری کئی شناختیں ہوسکتی ہیں جیسے میں الہ آباد ، بنارس ، دہلی میں رہا اورآج یہاں حیدرآباد میں مانو میں ہوں۔ لیکن میں جب کہیں باہر جاتا ہوں تو میری ایک ہی ایک شناخت ہوتی ہے کہ میں ہندوستانی ہوں۔ یہی میری اصل شناخت ہے۔

ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے کہا کہ اگر اللہ کو پہچاننا چاہتے ہو تو پہلے خود کو پہچانو۔ انسان اللہ کا خلیفہ ہے۔ ہندو ازم کے مطابق بھی آتمائیں پرماتما میں مل جاتی ہیں۔ داراشکوہ علم کا پیاسہ تھا۔ اس نے جہاں سے علم ملا، اسے لے لیا اور پھر مجمع البحرین لکھی۔ اس کانفرنس کے مقالوں پر مبنی جب کتاب شائع ہوگی تو اس سے لوگوں میں بیداری آئے گی ۔ انہوں نے یہاں موجود وائس چانسلرس سے درخواست کی کہ وہ اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں مذہبی تقابلی مطالعات کے شعبہ قائم کریں۔

پروفیسر فیضان مصطفی، وائس چانسلر، نلسار یونیورسٹی آف لائ، حیدرآباد نے کہا کہ داراشکوہ نے دلیل بنائی کہ ریاست کا مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کس طرح رشتہ ہوگا۔ یہی سیکولرزم ہے۔ مجمع البحرین میں داراشکوہ نے کہا تھا کہ یہ کتاب خود اس کے لیے ہے کیوں کہ وہ بادشاہ بننے والا تھا ، اس کے اہل خانہ کے لیے ہے جو آگے چل کر گورنر وغیرہ بنیں گے اور ریاست کو چلائیں گے اور صوفیوں کے لیے۔ داراشکوہ نے جو لکھا اس سے قبل چھاج نامہ میں 712 میں ہندوﺅں کو اہل کتاب قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مغلوں سے قبل مسلم حکمرانوں نے بھی مقامی ہندوﺅں کو اہم مقام دیا تھا۔ مالگزاری میں عمومی طور پر مسلم حکمرانوں کے پاس ہندو وزراءہوا کرتے تھے۔

پروفیسر ٹی وی کٹی منی، وائس چانسلر، سنٹرل یونیورسٹی آف آندھرا پردیش نے کہا کہ ترجمہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے روزگار کا۔ داراشکوہ بادشاہ تو نہیں بنا، لیکن وہ فن، فلسفہ، ادب و علم کا بادشاہ بنا۔ آج ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ دو مذہبوں کے درمیان کس طرح پل بنایا جاسکتا ہے، اس پر مباحثے ہو تے رہے ہیں لیکن اس پل کی بنیاد داراشکوہ نے ڈالی تھی۔

ڈاکٹر میر اصغر حسین، سابق ڈائرکٹر، یونیسکو نے کہا کہ داراشکوہ نے حکومت میں کامیابی تو حاصل نہیں کی لیکن اس کا مشن آج بھی معنی رکھتا ہے۔ مانو اس کے مشن کو آگے کتابوں کے ترجمہ کے ذریعہ بڑھا سکتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو کو ختم کیا جارہا ہے جب کہ زبان دریا کی طرح ہوتی ہے۔ اسے روکا نہیں جاسکتا۔

اس موقع پر این سی پی یو ایل کی شائع کی گئی کتاب ”دیوانِ داراشکوہ“ کا اجراءعمل میں آیا۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، صدر شعبہ فارسی و سنٹرل ایشین اسٹڈیز نے خیر مقدم کیا، کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔ ابتداءمیں دارا شکوہ پر ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔