اے ایم یو: مجاہد آزادی سید حسین کی سوانح عمری کا اجراء

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-01-2022
اے ایم یو: مجاہد آزادی سید حسین کی سوانح عمری کا اجراء
اے ایم یو: مجاہد آزادی سید حسین کی سوانح عمری کا اجراء

 


آواز دی وائس،علی گڑھ،

 بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستانی تحریک آزادی کے ایک رہنما، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سابق طالب علم، مدبّر و اسکالر، مصنف اور صحافی قاہرہ، مصر کے ایک قبرستان میں ایک تنہا لیکن خوبصورت سنگ مرمر کے مقبرے میں مدفون ہیں۔

مصر میں پہلے ہندوستانی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد فروری 1949 میں قاہرہ میں انتقال کرجانے والے سید حسین کی شخصیت گمنام رہ جاتی، لیکن ڈاکٹر اسعد فیصل (ریسرچ اسکالر، شعبہ ترسیل عامہ، اے ایم یو) کی تحریر کردہ سوانح عمری نے تحریک آزادی کے اس بھولے ہوئے ہیرو کو دور حاضر میں زندہ کر دیا ہے۔اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے آج اپنے دفتر میں ایک خصوصی تقریب میں اس کتاب کا اجراء کیا۔

’سید حسین: ہندوستان کا ایک دانشور مجاہدِ آزادی‘ (براؤن بکس)میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح مسٹر حسین نے تحریک آزادی ہند کے دوران زبان و قلم دونوں کو بامقصد انداز میں اور بے حد مؤثر طریقہ سے استعمال کیا۔

پروفیسر منصور نے کہا ”یہ سوانح عمری عام قارئین کے لئے ہے جو سید حسین کی زندگی کے مختلف گوشے وا کرتی ہے۔ اس میں ان ممالک کی تاریخی تفصیلات موجود ہیں جن کا انہوں نے دورہ کیا اور اس کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے انگلستان اور امریکہ میں ہندوستانی قوم پرستی کی مشعل کو اپنی تحریروں اور پرجوش تقریروں کے ذریعے روشن رکھا، جسے برطانوی راج ناپسند کرتا تھا“۔ وائس چانسلر نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی یہ کتاب انگریزی میں بھی سامنے آئے گی۔ اس کتاب میں اے ایم یو میں مسٹر حسین کی اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن جانے سے پہلے کی طالب علمی کی زندگی کی تفصیلات بھی مرقوم ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی (شعبہ ترسیل عامہ) نے کہا کہ ’سید حسین: ہندوستان کا ایک دانشور مجاہد آزادی‘ مسٹر حسین کی زندگی کے ان تمام لمحات کا احاطہ کرتی ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کس طرح محمد علی جناح کے خلاف ہو گئے اور مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد وہ ٹوٹ گئے تھے۔

کتاب کے مصنف ڈاکٹر اسعد فیصل نے کہا ”صحافت مسٹر حُسین کا جنون تھا۔ میں نے اس سوانح عمری میں ہندوستانی تحریک آزادی اور قوم پرستی پر ان کے ان مضامین کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے جو ’نیو اسٹیٹس مین‘، ’کنٹیمپریری ریویو‘، 'پال مال گزٹ'، 'ایشیاٹک کوارٹرلی'، 'نیو ایج' اور 'فارین افیئرز' وغیرہ میں شائع ہوئے تھے۔ برطانوی حکومت کے خلاف ان کے اداریوں کو مہاتما گاندھی اور موتی لال نہرو جیسے لوگ دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ انہوں نے ایسی شہرت حاصل کی کہ دو سال کے اندر موتی لال نہرو نے انہیں اپنے روزنامہ 'انڈپنڈنٹ' کا چارج سنبھالنے کے لئے الہ آباد بلایا اور انگریز ی راج کے غیض و غضب کے باوجود تین ماہ کے عرصے میں مسٹر حسین نے ’انڈپنڈنٹ‘ کو ملک کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات میں سے ایک بنا دیا“۔

ڈاکٹر اسعد فیصل نے سید حسین کے بنگلہ دیش نشیں بھتیجے سید اقبال احمد کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا جنھوں نے سید حسین کی زندگی کی نایاب تصاویر کے ساتھ ہی قیمتی مواد بھی دیا اور کتاب کی اشاعت کے لئے فنڈ فراہم کیا۔