اے ایم یو:ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کو اعزازی ڈگری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-11-2021
اے ایم یو:ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کو اعزازی ڈی ایس سی
اے ایم یو:ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کو اعزازی ڈی ایس سی

 

 

علی گڑھ، 15/ نومبر: ”اگر ہندوستان 3ٹریلین ڈالر سے 12/ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننا چاہتا ہے تو ہر ہندوستانی کو ڈاٹا اور کنیکٹیویٹی سے لیس اسمارٹ ڈیوائس ’زندگی کے لیے مِنی پیڈ‘ فراہم کرنا چاہئے جس سے وہ تعلیم، صحت اور اعلیٰ ہنر تک رسائی حاصل کرسکے“۔ ان خیالا ت کااظہار ٹاٹا سنز کے چیئرمین مسٹر نٹراجن چندر سیکرن نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے خصوصی ورچوئل کانووکیشن میں ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی اعزازی ڈگری قبول کرتے ہوئے کیا۔

یہ کووِڈ سے ماقبل کا روایتی جلسہ تقسیم اسناد نہیں تھا مگر اے ایم یو برادری نے جوش اور جذبہ کے ساتھ ٹاٹا سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیئرمین کی زندگی اور حصولیابیوں کا جشن منایااور انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔

انہیں یہ اعزاز ٹاٹا گروپ کے چیئرمین کے طور پر دیا گیا، جو ہندوستان کے نجی شعبے کے سب سے بڑے ملازمت دہندہ ہیں، جنہیں فوربس کی جانب سے دنیا کی سب سے اختراعی کمپنیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے اور جن کی فیاضی، خیراندیشی اور کارناموں سے قوم کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔

اعزازی ڈگری کو قبول کرتے ہوئے مسٹر چندر سیکرن نے کہا: ”ٹاٹا گروپ کے اپنے تمام ساتھیوں کی جانب سے میں اس اعزاز کو قبول کرنے کا افتخار حاصل کررہا ہوں - جو اس گروپ کے مشعل بردار ہیں۔ ہمارے بانی، جمشید جی ٹاٹا کا پختہ یقین تھا کہ کمیونٹی کاروبار میں صرف ایک شریک نہیں ہے، بلکہ درحقیقت کسی بھی آزاد ادارے کے وجود کی اصل وجہ ہے۔ 28 مارچ 2020 کو، وبا کی ابتدا کے وقت، چیئرمین ایمریٹس مسٹر آر این ٹاٹا نے کہا تھا کہ، ’ہندوستان اور پوری دنیا میں موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ ٹاٹا ٹرسٹ اور ٹاٹا گروپ کی کمپنیاں ماضی میں قوم کی ضروریات کو پورا کرتی رہی ہیں۔ اس وقت ضرورت دیگر وقتوں سے زیادہ بڑی ہے‘۔ ان کی رہنمائی میں ٹاٹا گروپ نے لبیک کہا اور وبا کے خلاف ہماری اجتماعی لڑائی میں حکومت ہند اور ساتھی شہریوں کی مدد کی“۔

awaz

انہوں نے مزید کہا: ٹاٹا گروپ کی کمپنیوں نے، جہاں بھی ہم موجود ہیں، کمیونٹیز کو اولیت دی ہے۔ ہمارے گروپ نے کمیونٹیز کی بہتری کے بنیادی اصولوں کے طور پر دیگر چیزوں کے علاوہ صحت کی دیکھ بھال، معاش اور تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے۔

مسٹر چندر سیکرن نے تعلیم کو کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔انہوں نے کہا: ”ہندوستان میں، ہمارے پاس 14 سال سے کم عمر کے 250 ملین سے زیادہ ہندوستانی ہیں - جو کہ برطانیہ کی پوری آبادی کے حجم سے دوگنا زیادہ ہے۔ ہر ماہ، مزید ایک ملین ہندوستانی کام کرنے والی آبادی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمیں ان انسانی وسائل کو ایک زبردست صلاحیت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ہم اپنے لوگوں کو کس طرح تعلیم اور ٹریننگ دیتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں یہ ہمارے ملک کی خوشحالی کی کلید ہوگی“۔

مسٹر چندر سیکرن نے کہا ”ٹکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے؛ ماحولیات اور پائیداری کے معیارات ہمارے رہن سہن اور کام کرنے کے طریقے کو بدل رہے ہیں۔ یہ جدت اور تحقیق کے حدود کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اختراع صرف مختلف شعبوں میں نہیں بلکہ شعبوں کے دوراہوں پر بھی ہورہا ہے۔ ایک نئی معیشت فروغ پا رہی ہے۔ اس میں ہندوستان کے لیے ایک دلچسپ امکان ہے۔ لیکن نہ صرف حصہ لینے کے بلکہ عالمی رہنما بننے کے لئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بلند تر کرنے، تحقیق اور اختراع میں سرمایہ کاری، اشتراک اور کھلے پن کے ماحولیاتی نظام اور کلچر کی تخلیق کی ضرورت ہے، تاکہ جدت پروان چڑھ سکے۔ اگر ہم اپنے بڑے انسانی سرمایہ کے ساتھ ایسا کرسکے، تو ہم نہ صرف دسیوں ملین ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دہائی کے آخر تک اپنی جی ڈی پی فی کس کو 5,000 ڈالر سے زیادہ تک بڑھا سکتے ہیں۔ ہم کس طرح لوگوں کو تعلیم اور ٹریننگ و ترغیب دیتے ہیں یہ ہمارے ملک کی خوشحالی کی کلید ہوگی“۔

انھوں نے کہا ”ہندوستان کو ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے خرچ میں اضافہ کرنا چاہئے اور ٹیکنالوجی اور انٹلیکچوئل پراپرٹی کی ملکیت میں سرمایہ کاری کرنا چاہیے، ہندوستانی یونیورسٹیوں کو آپس میں اور دیگر غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کے لیے حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔ ہمیں ٹیک سٹی کلسٹرز بنانے کی ضرورت ہے جس میں کنیکٹیویٹی، اِسکل ایکو سسٹم اور رِسک کیپٹل تک رسائی ہو،جہاں ہندوستانی،ہندوستان میں سیکھے اور ہندوستان کو تبدیل کرے۔ ہمیں اب جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان سافٹ ویئر سروسز میں ایک عالمی رہنما ہے اور اسے ڈیٹا میں عالمی رہنما بننا چاہئے۔ ہمیں مصنوعی ذہانت، 5جی، کوانٹم کمپیوٹنگ اور الیکٹرانکس پر زور دینا ہوگا اور پرائیویسی، ڈیٹا اسٹوریج، ٹیکسیشن، مارکیٹ تک رسائی، امیگریشن، اور سائبر سیکیورٹی پارٹنرشپ پر مشترکہ معیارات اور پروٹوکول بنانے کی ضرورت ہے“۔

مسٹر چندرسیکرن نے ایک مضبوط ریسرچ و ڈیولپمنٹ کلچر کو فروغ دینے کے لئے تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان اشتراک پر زور دیا جس سے اختراع کی راہیں کھلیں گی۔ ہندوستان میں ایک ایسے تعلیمی نظام کا از سر نو تصور کرنا جو چست اور ڈیجیٹل طور پر مقامی مسائل حل کرنے والوں کی پرورش کرے یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی جو ہم ہندوستان کے مستقبل کے لیے کر سکتے ہیں۔

مسٹر چندرسیکرن نے اے ایم یو کے عزت مآب چانسلر ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین، وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور اور اے ایم یو کا اس باوقار اعزاز کے شکریہ ادا کیا۔

 

awaz۰ خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے زور دیا کہ اے ایم یو کے بہت سے طلباء گزشتہ برسوں میں ٹی سی ایس سمیت ٹاٹا گروپ کی مختلف کمپنیوں میں ملازمت کر تے رہے ہیں۔

پروفیسر منصور نے کہا ”اے ایم یو مستقبل میں اپنے طلباء کے لئے آپ کی مسلسل سرپرستی کے تئیں پرامید ہے۔ ہم اس کی بھی امید رکھتے ہیں کہ ہمارے طلباء کی کاروباری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اور انجینئرنگ اور مینجمنٹ اسٹڈیز میں انکیوبیشن اور اسٹارٹ اپ سیل کو آپ کی رہنمائی اور آپ کا تعاون حاصل ہوگا“۔ 

انھوں نے کہا: اے ایم یو سماج کے معاشی طور پر کمزور طبقات کو تعلیم دینے کے اپنے مشن پر فخر کرتی ہے۔ پورے ملک میں ہمارے یہاں کا فیس ڈھانچہ سب سے کم ہے اور میں مسٹر چندر سیکرن سے درخواست کروں گا کہ وہ ٹاٹا گروپ کے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری پروجیکٹوں کے تحت ہماری یونیورسٹی کو تعاون دینے پر غور کریں۔

وائس چانسلر پروفیسر منصور نے کہا ”مسٹر چندرسیکرن ہم سب کے لئے اور خاص طور پر نوجوانوں اور مستقبل کے صنعت کاروں کے لئے ایک عظیم رول ماڈل ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر سنجیدہ محنت، دیانتداری اور لگن کی بنیادوں پر اپنے ہاتھوں حاصل کی گئی کامیابی کی روشن مثال ہے۔ ایک عظیم کارپوریٹ لیڈر کے طور پر ان کی قیادت دیانتداری، اخلاقیات، امتیاز اور سماجی ذمہ داری کے تئیں لگن کی قدروں پر مبنی ہے“۔

انھوں نے کہا کہ اے ایم یو برادری کو مسٹر چندرسیکرن کو اعزازی ڈگری پانے والوں کے نامور گروپ میں شامل کرنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے، جس میں ماضی میں پنڈت جواہر لعل نہرو، ڈاکٹر راجندر پرساد، لال بہادر شاستری، ڈاکٹر سی وی رمن، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور سعودی عرب، ملیشیا، جرمنی، ایران، مصر وغیرہ کے وزرائے اعظم، صدور اور بادشاہ شامل رہے ہیں۔

پروفیسر منصور نے کہا ”مسٹر چندرسیکرن کی شخصیت ان کی بصارت، انکساری، لچک، ملنساری، ہر نقطہ نظر کو سننے، مختلف نقطہ ہائے نظر سے ہم آہنگی پیدا کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ وہ نہ صرف ہندوستان کے چند بڑے کارپوریٹ اداروں بلکہ آئی آئی ایم لکھنؤ جیسے ممتازتعلیمی ادارے اور دنیا کے دیگر نامور اداروں کو بھی اہل قیادت فراہم کر رہے ہیں“۔

awaz

انھوں نے کہا: مسٹر رتن ٹاٹا جیسی مشہور شخصیت کا جانشین ہونا بذات خود ایک گرانقدر حصولیابی ہے اور مجھے یقین ہے کہ مختلف شعبوں میں مزید کامیابیاں ان کی منتظر ہیں اور وہ مستقبل میں اہم اور نئے اداروں کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کریں گے، جس میں ہمارے قومی کیریئر - ایئر انڈیا کی شان بحال کرنا بھی شامل ہے جو کبھی تمام ہندوستانیوں کا فخر تھا۔ ایئر انڈیا کے حالیہ کامیاب ٹیک اوور میں مسٹر چندرسیکرن کی قیادت کا اہم کردار تھا۔ خود مسٹر رتن ٹاٹا کے لفظوں میں ”ٹاٹا سنز کے ذریعہ کیا گیا فیصلہ مکمل طور پر گروپ چیئرمین چندرسیکرن کی قیادت میں چنندہ افراد کے مطالعہ اور اخذ کئے گئے نتیجہ پر مبنی تھا“۔

وائس چانسلر نے کہاکہ کارپوریٹ قیادت سے متعلق مسٹر چندرسیکرن کے نقطہ نظر کی خصوصیت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مشترکہ بھلائی اور انسانی بہبود مستقبل کے لئے ان کے وِژن کا محور ہے۔ پروفیسر منصور نے کہا ”وہ ہندوستان کی کامیابی کے روڈ میپ میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیئل انٹلی جنس) اور ڈجیٹل تبدیلی کے کردار کی مرکزیت کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ’بریجیٹل نیشن‘ ایک طاقتور وِژن پیش کرتی ہے کہ ہم ٹکنالوجی کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ ٹکنالوجی کو انسانی محنت کے ناگزیر متبادل کے طور پر قبول کرنے کے بجائے وہ اسے مدد کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ نوکریاں چھیننے کے بجائے یہ نئی ملازمتیں پیدا کر سکتی ہے“۔ 

اے ایم یو کی تاریخ کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ ایم اے او کالج کو عظیم سماجی مصلح اور ماہر تعلیم سر سید احمد خان نے قائم کیا تھا اور یہ کالج 1920ء میں یونیورسٹی بنا۔ ایم اے او کالج وسیع القلب رواداری، پاکیزہ اخلاقیات، آزاد فکر اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی یادگار تھا۔

وائس چانسلر نے کہا ”اب ہم تدریس، تحقیق اور اختراع میں ایک سرکردہ اور متحرک ادارہ ہیں اور خود انحصاری، تکنیکی طور پر مضبوط اور جدید ہندوستان کے قومی اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق معاشرے کی پائیدار ترقی اور سب کے لئے بہتر مستقبل کی خاطر ایک مربوط جدید نظام تعلیم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔اے ایم یو مختلف رینکنگ ایجنسیوں سے مسلسل اعلیٰ رینک حاصل کر رہا ہے، وزارت تعلیم کے این آئی آر ایف نے ہمیں 2021 میں ہندوستانی یونیورسٹیوں میں 10 واں اور ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں تحقیق میں چوتھا مقام عطا کیا ہے۔ہمارا جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج 600 سے زائد میڈیکل کالجوں میں 15 ویں پوزیشن پر اور لاء فیکلٹی 10 ویں پوزیشن پر ہے۔اسی طرح ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے فیکلٹی آف لائف سائنسز کو ہندوستان میں نمبر ایک درجہ دیا ہے“۔

 پروفیسر منصور نے کہا کہ وزیر اعظم شری نریندر مودی جی نے 22/دسمبر 2020 کو یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اے ایم یو کو ’ مِنی انڈیا‘ کہا تھا۔

انھوں نے مزید کہا ”حالیہ دنوں میں یونیورسٹی نے کووِڈ-19 وبا میں علاج، جانچ اور ویکسین کے ٹرائل میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج نے نصف ملین سے زائد آرٹی پی سی آر ٹسٹ کئے اور یہ پہلا ادارہ تھا جہاں بھارت بایوٹیک اور آئی سی ایم آر سے اسپانسر شدہ کوویکسین فیز تھری ٹرائل کے لئے سب سے پہلے 1000 رضاکاروں کا رجسٹریشن ہوا۔ یونیورسٹی نے ملک میں سماج کے مختلف طبقات میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو دور کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں“۔

انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی سائنس اور ٹکنالوجی میں جدید ترین پیش رفت سے ہم آہنگ رہنے کے لئے تمام تر کوششیں کر رہی ہے اور اس نے مصنوعی ذہانت، روبوٹک انجینئرنگ، زلزلہ اور ڈِزایسٹر مینجمنٹ، گرین و قابل تجدید توانائی، نینو ٹکنالوجی، بایو میڈیکل انجینئرنگ، ڈاٹا سائنسز، سائبر سیکیورٹی اور ڈیجیٹل فارنسکس، اسٹریٹجک اسٹڈیز، کارڈیالوجی، نرسنگ، پیرا میڈیکل سائنسز، کریٹیکل کیئر، پین مینجمنٹ اور دیگر شعبوں میں نئے کورسز اور مراکز شروع کئے ہیں۔ 

وائس چانسلر نے کہا کہ اے ایم یو نے کووِڈ-19 وبا کے دور میں خاص طور پر آن لائن لرننگ اور ریسرچ کے میدان میں نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ انھوں نے کہا ”ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ ملک میں جاری وسیع ٹیکہ کاری پروگرام کے ساتھ، تعلیمی اداروں سمیت تمام شعبوں میں جلد ہی مکمل طور سے معمولات زندگی بحال ہو جائیں گے“۔

وائس چانسلر نے مزید کہا ”میں مسٹر چندرسیکرن کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ مستقبل میں ہمارے کیمپس کا دورہ کریں اور ہماری تاریخ اور ورثہ کا بذات خود مشاہدہ کریں“۔

۔ اے ایم یو کے چانسلر عزت مآب سیدنا مفضل سیف الدین نے مسٹر چندرسیکرن کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم انسان کے باطن کو پاکیزہ کرتی ہے اور اس کے اور اس کے کنبہ کے لئے مددگار ہوتی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اسلام میں تجارت کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور پیغمبرؐ اسلام نے لوگوں کو زمین کے پوشیدہ حصوں میں رزق تلاش کرنے کی تاکید کی تھی۔

چانسلرموصوف نے کہا ”اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھتا ہے جو انسانیت کے وسیع تر فائدے کے لیے کام کرتے ہیں اور تجارت کو اللہ کی طرف سے بنی نوع انسان کو عطا کردہ فضل قرار دیا گیا ہے“۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم ایک پاکیزہ اور مطمئن زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے اور اسے حاصل کرنا ہر مرد و زن پر فرض ہے۔

اے ایم یو کے خازن پدم شری پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔ کنٹرولر امتحانات جناب مجیب اللہ زبیری نے مسٹر چندر سیکرن کے سند توصیفی کو پڑھا، جب کہ اے ایم یو رجسٹرار مسٹر عبدالحمید آئی پی ایس نے پروگرام کی نظامت کی۔