اے ایم یو : گاندھی جی کے یوم پیدائش پر آن لائن تقریب کا انعقاد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2021
 آن لائن تقریب کا انعقاد
آن لائن تقریب کا انعقاد

 

 

علی گڑھ، 2 اکتوبر: مہاتما گاندھی کے 152 ویں یوم پیدائش کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کے زیر اہتمام ایک آن لائن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ عدم تشدد کے پجاری اور بابائے قوم مہاتما گاندھی نے عالمی امن کے پیامبر کے طور پر خدمات انجام دیں۔انہوں نے عدم تشدد اور عالمی رواداری کے اپنے اصولوں کے ذریعہ پوری دنیا پر جس طرح کے اثرات مرتب کیے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

پروفیسر منصور نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے خصوصی قربت تھی اور تحریک آزادی کے دوران وہ کئی بار علی گڑھ تشریف لائے۔ ان کے کئی خطوط اور تصاویر اے ایم یو کی مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اے ایم یو اسٹوڈنٹس یونین نے انہیں 1920 میں پہلی لائف ممبر شپ دی اور مہاتما گاندھی کی اپیل پر یونیورسٹی کے طلبہ نے سودیشی تحریک کا پرچار کیا۔

وائس چانسلر نے کہا کہ مہاتما گاندھی دنیا کے عظیم ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے اور ان کے نظریات اور اصول وقت کی کسوٹی پر ہمیشہ کھرے اترے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عظیم رہنماؤں اور مفکرین کی ایک طویل، متنوع اور حیران کن فہرست ہے جو مہاتما گاندھی سے متاثر تھے۔ ان میں سے ایک مارٹن لوتھر کنگ جونیئر بھی تھے، جنہوں نے ستیہ گرہ کے گاندھیائی اصول، مساوات اور سماجی انصاف کو اپنا کر افریقی امریکیوں کے لیے یکساں شہریت کے حقوق کے حصول کے لیے استعمال کیا۔-

پروفیسر منصور نے کہاکہ مہاتما گاندھی کی غریبوں، مظلوموں اور نچلی ذات کے لوگوں کے لیے ہمدردی بے مثال ہے اور وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی بے مثال جرأت اور کمزوروں کے لیے کیے گئے کام کے لیے احترام کے مستحق تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان کا مشہور قول ہے کہ 'میری زندگی ہی میرا پیغام ہے' اور وہ کتنی سادہ زندگی بسر کرتے تھے یہ دیکھنا اپنے آپ میں ایک حیران کن احساس تھا۔ گاندھی جی کی زندگی ان کے خیالات اور عمل کی بہترین عکاسی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایک مذہبی ہندو کی حیثیت سے گاندھی جی کا ماننا تھا کہ دوسرے مذاہب کا احترام اور ان کا مطالعہ ایک مقدس کام ہے اور اس سے کسی کے احترام میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ان کا ماننا تھا کہ تمام عظیم مذاہب بنیادی طور پر برابر ہیں اور ان کے لیے یکساں احترام اور رواداری ہونی چاہیے۔ مذہب پر گاندھی جی کے خیالات اور سیکولر اصول کے طور پر دوسرے مذاہب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر پوری دنیا کے لیے قابل تقلیدہے۔ پروفیسر منصور نے بعد میں قومی آزادی اور سالمیت کے تحفظ اور استحکام کے لیے لگن کے ساتھ کام کرنے کا آن لائن حلف دلایا۔ اے ایم یو کے اساتذہ، طلباء اور غیر تدریسی عملے کو 'سوچھتا عہد' دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی نے ایک ترقی یافتہ اور صاف ستھرے ملک کا خواب دیکھا تھا اور ہمیں ان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہئے۔

اس سے قبل، وائس چانسلر نے گاندھی جی سے متعلق نایاب کتابوں، دستاویزات، میگزین اور ان کی زندگی کے تمام اہم واقعات کی عکاسی کرنے والی مائکرو فلم کی ایک آن لائن نمائش کا افتتاح کیا۔

 مہاتما گاندھی کی عظمت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر اے آر قدوائی (ڈائریکٹر، یو جی سی ایچ آر ڈی سنٹر) نے کہا کہ گاندھی جی کی تعلیمات تشدد سے بچنے اور تنازعات کے پرامن حل کو فروغ دیتی ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں نے گاندھی جی کی تعلیمات سے صبر، مہربانی اور ایماندار رہنا سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی تعلیم کی وردھا اسکیم (1937) جسے نئی تعلیم یابنیادی تعلیم بھی کہا جاتا ہے، مہاتما گاندھی کی ہی فکر کا نتیجہ تھی۔ انہوں نے تعلیم کو قومی تعمیر نو کا ایک موثر ذریعہ سمجھا اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی سربراہی میں ایک کمیٹی مقرر کی تاکہ ہندوستان میں بنیادی تعلیم کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جا سکے۔

 پروفیسر قدوائی نے وضاحت کی کہ ینگ انڈیا کے ایک ایڈیشن میں مہاتما گاندھی نے لکھا تھا کہ اے ایم یو کے طلباء قومی تحریک کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور ان کے والدین کو ان کی مزید تعلیم کے لیے اے ایم یو کا انتخاب کرنے پر مبارکباد دی۔

شعبہئ ہندی کے سربراہ پروفیسر رمیش چند نے کہا کہ گاندھی ازم 'سادہ زندگی اور اعلیٰ سوچ' کے بنیادی تصور سے شروع ہوتا ہے اور اس کا مقصد فرد اور معاشرے کو تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج دنیا کو جس نوع کے ہنگامی دور کا سامنا ہے اس میں ضروری ہے کہ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں گاندھی جی کے فلسفہ کو شامل کیا جائے۔ گاندھی جی کی سیاسی شراکت نے ہمیں آزادی دی اور ان کے نظریات نے دنیا کو روشنی بخشی۔ اس طرح ہر شخص کو خوشگوار، خوشحال، صحت مند، ہم آہنگ اور پائیدار مستقبل کے لیے اپنی روز مرہ کی زندگی میں اہم گاندھیائی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔

پروفیسر رمیش چند نے اس بات پر زور دیا کہ گاندھی کی تعلیمات نے نہ صرف برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے میں مدد کی بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کے احترام کا سبق بھی دیا۔

اے ایم یو کے طلباء یاسر علی خان (پی ایچ ڈی) اور شرمین (بی اے آنرز) نے گاندھی جینتی کے تناظر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے ذریعے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کیسے کام کیا اور عدم تشدد پر مبنی

ان کے خیالات آج بھی کتنے بامعنی ہیں۔

 پروگرام کی نظامت پروفیسر ایف ایس شیرانی (ڈین، فیکلٹی آف یونانی میڈیسن) نے کی اور شکریہ کی ادائیگی کا فریضہ پروفیسر نشاط فاطمہ (یونیورسٹی لائبریرین) نے انجام دیا۔ جناب ایس ایم سرور اطہر، قائم مقام رجسٹرار، اے ایم یو نے بھی آن لائن تقریب میں شرکت کی۔