ایک مسئلہ کا حل یا ایک مسئلہ۔۔ بچوں کی آن لائن تعلیم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-01-2021
آن لائن کلاس
آن لائن کلاس

 

شاہ تاج / پونے
 
کووڈ۔19 کے دور میں تعلیم جاری رکھنا ایک مسئلہ بن کر سامنے آیا جس کا حل آن لائن کلاسس کی شکل میں تلاش کیا گیا۔ حکومت نے آن لائن کلاس کے متعلق کچھ  گائڈلائنز جاری کی تھیں۔جس کے تحت پری پرائمری اسکول کے بچوں کا اسکرین ٹائم30  منٹ،پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو 45  منٹ کی دو کلاس یعنی صرف ایک گھنٹہ تیس منٹ آن لائن رہنے کی اجازت دی۔اسی طرح نویں سے بارہویں جماعت میں زیرِ تعلیم بچوں کو  4کلاس جو 45 منٹ سے زیادہ نہ ہوں۔والدین نے بھی اطمینان کا سانس لیا کہ بچوں کی تعلیم متاثر نہیں ہوگی۔لیکن اب آن لائن کلاسس کے مضر اثرات والدین کی تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔
اسکرین پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر
 آن لائن تعلیم مسئلہ کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔والدین ہی نہیں بچے بھی پریشان ہو چکے ہیں۔عدنان کی بات بہت حد تک درست ہے کہ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ہے۔وہ نویں جماعت میں ہے اس کا کہنا ہے کہ مجھے لگتا ہی نہیں کہ میں نے کچھ نیا سیکھا ہے۔الباش کا فرسٹ ٹرم کا رزلٹ آیا تو حساب میں اس کے نمبر بہت کم آئے تھے جس کے لئے وہ آن لائن کلاسس کو ذمہ دار مانتا ہے۔بچے اسکرین پر اپنی توجو مرکوز نہیں کر پا رہے ہیں۔ان کا دھیان یہاں وہاں بھٹکتا رہتا ہے۔کلاس میں اپنے ساتھیوں کے درمیان اور ٹیچر کے سامنے بیٹھ کر پڑھائی کرنے والے اکثر بچے خود کو اس سسٹم میں ڈھال نہیں پائے ہیں۔
لوگوں سے الگ تھلگ رہنا
بچے سست ہو گئے ہیں،ہر وقت موبائل،لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔کبھی کلاس کے نام پر تو کبھی پروجیکٹ کے نام پر۔عالیہ کا بیٹا دسویں جماعت میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا خاموش رہنے لگا تھا۔اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا تھا۔ہمیں اس کی فکر ہوئی تو سائیکولوجسٹ کے پاس لیکر گئے۔تب معلوم ہوا کہ وہ depression اور anxiety کا شکار ہے۔ میرے بیٹے کی صحت میرے لیے زیادہ اہم ہے۔۔ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ جو بچے کو ہمت کی جگہ ذہنی دباؤدے۔بچے الگ اپنے کمروں میں بیٹھ کر پڑھائی کر تے ہیں۔دھیرے دھیرے وہ لوگوں سے کٹتے جا رہے ہیں وہ کسی سے بات نہیں کرتے۔کچھ ہی وقت میں حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ بچے کچھ افراد کے درمیان بھی بے چینی محسوس کرنے لگے ہیں۔مواصلات کا فقدان نظر آنے لگا ہے۔بچے بات چیت کرنے سے کترانے لگے ہیں۔
ٹکنالوجی 
ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو موبائل دینا نہیں چاہتے تھے لیکن ان کی مجبوری دیکھئے کہ انہوں نے وائی فائی کنیکشن کے ساتھ موبائل فون اپنے بچوں کو تھما دئیے۔جو والدین اپنے بچوں کو موبائل،لیپ ٹاپ وغیرہ دستیاب نہیں کرا سکے وہ ایک الگ ہی شرمندگی کا شکار ہیں۔جنہوں نے کسی طرح یہ مہنگے الیکٹرونک سامان خرید بھی لیے تو ہر مہینے کے انٹرنیٹ کا اضافی خرچ ان کی جیب پر بوجھ بن گیا ہے۔سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوا جو ٹکنالوجی سے واقف نہیں تھے۔
اس قسم کی پریشانی کا شکار صرف بچے اور والدین ہی نہیں بنے بلکہ متعدد ایسے ٹیچر ہیں جو ابھی تک آن لائن تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کلاسس شروع کرنے کے وقت ہمارے بہت سے  ٹیچر ہی آن لائن کلاسس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔بس کام شروع کر دیا گیا۔یہی وجہ تھی کہ وہ بچوں کے لئے اسے دلچسپ بنا کر پیش کرنے میں ناکام رہے۔
ایسے ہی بچوں کے غلط طریقے سے بیٹھنے کے سبب جسمانی بیماریوں نے بھی انہیں گھیرنا شروع کر دیا۔بچے گردن میں درد،کمر میں درد، آنکھوں میں درداور سب سے زیادہ موٹاپے کا شکار بن رہے ہیں۔اکثر کی آنکھوں پر چشمہ لگ چکا ہے۔
بہر حال حالت یہ ہے کہ مسئلہ کا جو حل تلاش کیا گیا وہ خود ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔آن لائن کلاسس نے ایک راہ تو دکھائی لیکن  ہم اس کے لئے تیار نہیں تھے۔نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب ڈھیروں مسائل ہمارے سامنے ہیں۔اسکول کب کھلیں گے اور اس کے بعد کے حالات کیا ہونگے ابھی کہنا مشکل ہے لیکن ان حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔